کیونکہ وہ ہمارے نزدیک اﷲ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔یہ دین کا معاملہ ہے۔اس میں کسی کا اپنا اختیار نہیں کہ کچھ کرسکے۔‘‘ (انوارخلافت ص۹۰مصنف مرزابشیرالدین محمود)
غیر احمدی سے رشتے کی ممانعت
’’مرزاغلام احمد نے ایک قادیانی کے خلاف جس نے ایک غیر قادیانی کو اپنی بیٹی نکاح کر دی تھی۔سخت ناراضگی کا اظہارکیا۔ایک اورشخص نے بار بار اسی طرح کی اجازت چاہی اور بیان کیا کہ اسے حالات کا دباؤ ایسا کرنے پرمجبور کررہا ہے۔لیکن مرزاقادیانی نے اس سے یہی کہا کہ اپنی لڑکی کوبٹھائے رکھولیکن غیراحمدیوں میں نہ دو۔مرزاقادیانی کی وفات کے بعد اس نے لڑکی غیر احمدیوں میں دے دی تو مرزا قادیانی کے خلیفہ اول حکیم نورالدین نے اس شخص کو امامت سے ہٹا دیا اورجماعت سے خارج کردیا اوراپنی خلافت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قبول نہ کی باوجودیکہ وہ بار بار توبہ کرتارہا۔‘‘ (انوار خلافت ازمیاں بشیرالدین محمود ص۹۳،۹۴)
مرزا قادیانی نے اپنے پیروؤں کو حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کریں جس طرح کا سلوک آنحضورﷺ نے عیسائیوں کے ساتھ روارکھا تھا۔ان کی نمازیں غیر قادیانیوں سے الگ کر دی گئی ہی۔انہیں اپنی بیٹیاں مسلمانوں کے نکاح میں دینے سے منع کیا اور کسی قادیانی کو کسی مسلمان کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کاحکم دیا۔(اس ضمن میں چودھری ظفر اﷲ کا کردار تمام دنیا کو معلوم ہے کہ انہوں نے قائداعظم کی نماز جنازہ میں شمولیت نہ کی حالانکہ وہ موقع پرموجود تھے۔)
مرزا بشیرالدین محمود کہتے ہیں: ’’غیراحمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئی۔ان کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیاگیا۔ان کے جنازے پڑھنے سے روکاگیا۔اب باقی کیا رہ گیا ہے جو ہم ان کے ساتھ مل کر کر سکتے ہیں۔دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں۔ایک دینی دوسرے دنیوی۔دینی تعلق کا سب سے بڑاذریعہ عبادت کے لئے اکٹھاہونا ہے اوردنیوی تعلقات کا بھاری ذریعہ رشتہ وناطہ ہے۔سو یہ دونوں ہمارے لئے حرام قرار دیئے گئے۔اگر کہو ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی اجازت بھی ہے تو میں کہتا ہوں کہ نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے اوراگر یہ کہو کہ غیر احمدیوں کو سلام کیوں کہا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کریمؐنے یہود کو بھی سلام کہا۔‘‘ (کلمتہ الفصل از بشیراحمد ج۱۴ص۱۶۹)
سامراجیوں کے ساتھ وفاداری
تحریک قادیانیت کی ابتداء ہی سے قادیانی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ ایک نئی