حضرت مسیح زندہ ہے۔
مرزا قادیانی یہاں ایک عجیب کھیل کھیلے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کی ایک اور قرأت سے پتہ چلتا ہے کہ آیت میں جن کی موت کاذکر ہے وہ ایمان لانے والے اہل کتاب ہیں اور ایمان بھی وہ مرتے وقت خدا اورآخرت پر نہیں لاتے بلکہ اس بات پر لاتے ہیں کہ حضرت مسیح سولی پر نہیں مرے یہ قرأت جو محاورہ اور روزمرہ کے بالکل خلاف ہے۔اس کا علم تنہا مرزا قادیانی کو ہوگا۔ہمیں تو اس کا کہیں سراغ نہیں مل سکا۔اس صورت میں اس بیان کا قتل اورسولی کے ذکر سے کوئی ربط نہیںرہ جاتا اور نہ اس میں کوئی خبریت پائی جاتی ہے۔کیونکہ یہ کوئی بتانے کی بات نہیں کہ اہل کتاب مرنے سے پہلے اورزندگی کی حالت میں ایمان لائیں گے۔مگر اس کے بعد بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ حضرت مسیح گواہ کن لوگوں پر ہوں گے۔اپنی موجودگی میں ایمان لانے والوں پر یا کسی اور پر۔اگر پہلی بات ہے تو پھر اس قرأت کی طرف جانے سے بھی مرزا قادیانی کے پلے تو کچھ نہ پڑا۔اس صورت میں بھی حضرت مسیح جب نزول فرمائیں گے تو اپنے اوپر ایمان لانے والے تمام اہل کتاب کے قیامت کو گواہ ہوںگے۔
باپ کا نام بیٹے کو
’’حضرت اسماعیل بخاری صاحب کا مذہب یہی تھا۔ وہ ہرگز اس بات کے قائل نہ تھے کہ سچ مچ ابن مریم آسمان سے اترے گا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۹۶،خزائن ج۳ص۱۵۳)
مرزا قادیانی نے امام بخاری کا نام سب جگہ اسماعیل اور محمد اسماعیل لکھا ہے۔ حالانکہ اسماعیل ان کے باپ کا نام تھا۔اس کے ساتھ انہوں نے امام پر یہ بہتان با ندھا کہ وہ نزول مسیح میں تمام اہل سنت اور مسلمانوں کے خلاف عقیدہ پر تھے۔ یہ وہ جھوٹ ہے جس پر تمام عمر قائم رہے اور اس کا انہیں شعور تک نہ ہوسکا۔اسی طرح ابن عباسؓ پر جھوٹ کہ اس جھوٹ پر تمام صحابہ کا اجماع قائم کر دکھایا۔جھوٹ میں یہ جسارت جس امام کی ہو اس کے امتی جو جھوٹ بولیں کم ہے۔ قصہ صرف اتنا تھا کہ امام بخاری ابن عباسؓ سے روایت لائے کہ اﷲ نے فرمایا تھا کہ اے عیسیٰ میں تجھے وفات دوں گا۔بس اتنی بات پر مرزا قادیانی نے ڈھول بجایا کہ ابن عباسؓ و تمام صحابہؓ اور امام بخاریؒ کے نزدیک حضرت مسیح علیہ السلام مر گئے ہیں اور یہ تک نہ سمجھ پائے کہ وفات دوں گا کا مطلب یہ نہیں کہ وہ فوت ہو گئے ہیں۔ اگرچہ بجائے خود یہ معنے بھی درست نہیں۔ کیونکہ وفات کا وعدہ دلانا بشارت ہے اور نہ اطلاع۔اسی طرح ان کا کہنا کہ حدیث قرآن کے مطابق ہو صرف وہی مانو اور بخاری میں حدیث ہے کہ امام مہدی کے تشریف لانے پر آسمان سے آواز آئے گی کہ