پس قیامت کے دن تک عیسیٰ علیہ السلام کے متبعین کے یہود پر غلبے سے مراد یہ ہے کہ جب یہود کا وجود رہے گا ۔مسلمان اورنصاریٰ ان پر غالب رہیں گے۔ جب عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے تو یہود کا وجود نہیں رہے گا۔سو عیسیٰ علیہ السلام کے متبعین کے ان پرغلبے کاسوال ہی پیدا نہیںہوگا۔قرآن مجید کی ایک اورآیت ہے:
’’ومن اضل ممن یدعوا من دون اﷲ من لایستجیب لہ الی یوم القیامۃ وھم عن دعائھم غفلون (الاحقاف ۴۶:۵)‘‘{اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا۔جو اﷲ کے سوا کسی اورکو پکارے۔جو قیامت تک بھی اس کے بات نہ سنے۔بلکہ انہیںان کے پکارنے کی خبر نہ ہو۔پکاراجانے والاقیامت کے دن تک پکارنے والے کی پکار کو نہیں سنتا۔}اس کامطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ پکارنے والا قیامت کے دن تک پکارتارہے گا۔اس کا مفہوم یہی ہے کہ پکارنے والا زندگی بھر پکارتا رہے۔معبودان باطلہ اس کی پکار کو نہیں سنتے۔وہ موت تک ہی پکار سکتا ہے۔لیکن اس عرصے کی پکار کو قیامت کے دن تک کی پکار بیان کیاہے۔اسی طرح سے مسلمانوں اورنصاریٰ کی یہود پرفوقیت یہود کے وجود تک ہے۔پس آپ کا یہ خیال غلط ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد سب اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے۔ ضرور لائیں گے۔ ان ہی کے متعلق فرمایا:’’ویوم القیامۃ یکون علیھم شھیدا‘‘{اور(عیسی علیہ السلام) قیامت کے دن ان پر گواہ ہوں گے۔}
گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ آپ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ گواہ کا مشہود علیہم کے درمیان موجود ہونا ضروری ہے۔پس ’’وان من اھل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘میں ’’موتہ‘‘کی ضمیر کتابی کی طرف نہیںہوسکتی۔کیونکہ ہر کتابی کی موت کے وقت عیسیٰ علیہ السلام موجود نہیں ہوتے۔سوبموجب سورئہ المائدہ کی آیت ’’وکنت علیھم شھیدا مادمت فیھم‘‘وہ اس بات پر گواہ نہیں ہوسکتے۔ سو لامحالہ ضمیر کامرجع عیسیٰ علیہ السلام ہی ماننا پڑے گا۔یہ عیسیٰ علیہ السلام کی حیات پر نص ہے۔ قرب قیامت کے زمانے میں آسمان سے نزول کے بعد ان پرموت آئے گی۔آپ خود ہی لکھ رہے ہیں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں اسلام کا کئی ادیان پرغلبہ ہو جائے گا اورساتھ ہی یہ کہ تین صدیوں میں ایساہوگا۔خدا اوررسول نے اس مدت کا تعین نہیں کیا۔جب غلبے کی پیشگوئی انہوں نے کی ہے تو مدت کااندازہ بھی انہیں ہی ٹھہرانا چاہئے۔ نہ کوئی مرزاغلام احمدقادیانی کو۔
گزشتہ صفحات میں مسند امام احمد بن حنبلؒ کی ایک حدیث کے یہ الفاظ نقل کئے جاچکے