دی تو یہ تعلیم وہ اسی وقت دیں گے جب ان کاظہور اس امت میں ہوگا اور وہ دوبارہ اس دنیا میں تشریف لاکر اسلام کی امداد کریں گے۔
معجزات حضرت عیسیٰ علیہ السلام
اس کے بعد جس موضوع پر لکھنا چاہتا ہوں وہ معجزات عیسیٰ ہیں۔ ان کے حسب ذیل بیان ہوئے ہیں:’’کہ میں گارے سے پرندہ کی شکل بناتا ہوں، پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اﷲ کے حکم سے اڑتا جانور بن جاتاہے۔ اچھاکرتا ہوں مادر زاد اندھے اور کوڑھی اور مردے زندہ کرتا ہوں اﷲ کے حکم سے۔‘‘
بعض مادہ پرست اوردیگر اصحاب کئی وجوہ سے اس آیت سے یہ مراد لیتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حقیقتاً مردے زندہ نہیں کرتے تھے اوردیگر معجزات بھی ان سے صادر نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ یہ ایک روحانی فعل تھا۔ بعض کے خیال میں ایسا ہونا خلاف فطرت ہے یا دیگر قرآنی آیات کے خلاف ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے معنی یہی لئے جائیں… جن سے ظاہرہوتا ہے کہ یہ عمل روحانی طورپر صادر ہوا۔
میری رائے میں یہ اعتراضات قابل پذیرائی نہیں ہیں۔ کئی ایک وجوہات کی بناء پر۔ سوال یہ ہے کہ ’’احیاء موتی‘‘کا لفظ صرف اصلی معنوں میں استعمال ہوا ہے یا مجازی معنوں میں؟ ’’موتی‘‘میت کی جمع ہے جس کے معنی مردہ انسان کے ہیں۔قرآن مجید میں موتیٰ کا لفظ پہلے پہل سورئہ بقرہ یوں آیا ہے:
’’واذ قتلتم نفسا فادّرء تم فیھا واﷲ مخرج ما کنتم تکتمون، فقلنا اضربوہ ببعضھا،کذلک یحیی اﷲ الموتی ویریکم ایاتہ لعلکم تعقلون‘‘{اور جب مارڈالا تم نے ایک شخص کو،پھر لگے ایک دوسرے پر الزام دھرنے اور اﷲ کو ظاہر کرنا تھا جو تم چھپاتے تھے پھر ہم نے کہا مارو اس مردے پر اس گائے کاایک ٹکڑا ،اسی طرح زندہ کرے گا اﷲ مردوں کو اوردکھاتاہے تم کو اپنی قدرت کے نمونے تاکہ تم غور کرو۔}
قرآن کریم میں اس سے پہلے وہ کج حجتی بیان کی گئی ہے جو یہودیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کی۔جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ ایک گائے ذبح کرو تو انہوں نے عجب لیت ولعل شروع کی اوربڑی مشکل سے ذبح کی۔ اسی وقت ایک آدمی قتل کیا گیا تھا۔لیکن قاتل کا پتہ نہیں تھا۔وہ ایک دوسرے پر الزام دیتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی معرفت حکم دیا کہ اس ذبح شدہ گائے کے گوشت کاایک ٹکڑا لو اوراس مردے کے اس سے