ہیں کہ اسے خاص ماضی کے لئے کہتے ہیں اورذراخدا سے نہیں ڈرتے۔دوسری طرف اگر اسے ماضی کے لئے ماناجائے تو فقط یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ وعدہ گزشتہ زمانہ میںکیاگیاتھا نہ کہ گزشتہ زمانہ میں پورا ہوگیاتھا۔کیونکہ اتنی عقل توہر آدمی رکھتاہے کہ وعدہ ہمیشہ آنے والے معاملہ کاہوتا ہے۔موجود اورگزشتہ بات کا وعدہ نہیں ہواکرتا۔اس بناء پرجوآدمی صرف’’اذ‘‘ کی وجہ سے کہے کہ وعدے جو حضرت مسیح علیہ السلام کو دیئے گئے وہ وعدہ دیتے وقت ہی پورے کر دیئے گئے تھے۔وہ کتنے بڑے مغالطہ کاشکار ہے۔قرآن کے نزول کے وقت اﷲ نے حضرت مسیح سے کئے گئے وعدوں کا ذکرکیاہے۔یہ نہیں فرمایا کہ وہ وعدے پورے بھی ہوگئے ہیں۔وہ مرزاقادیانی کا اپنا بیان ہے کہ قرآن میں یہ وعدے پورے ہوچکنے کا بھی بیان ہے۔
پہلا وعدہ پورا پورا لے لینے کا بیان
اب آپ ان پانچوں وعدوں کی نوعیت پرغور کیجئے کہ وہ حضرت مسیح کے نزول سے پہلے پورے ہونے والے تھے بھی یا نہیں۔ پہلاوعدہ ان کے لئے لینے کا تھا۔جس کے لئے قرآن میں توفی کالفظ ہے۔اس وعدہ کا مرزاقادیانی نے نبی بننے سے پہلے مفہوم یہ لیاتھاکہ: ’’اے عیسیٰ! میں تجھے پورا پورا انعام دوں گا۔‘‘اورنبی ہونے کے بعد کہاکہ: ’’اے عیسیٰ!میں تجھے مارڈالوں گا۔‘‘ اور یہ اس لئے کہ دشمن حضرت مسیح کو سولی چڑھانا چاہتے تھے۔جوتورات میں لعنت کی موت بتائی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ تورات میں اصل مجرموں کے سولی پر مرنے کو لعنت کی موت کہاگیا ہوگا۔نہ کہ مطلق سولی کی موت کو اس لئے کہ قرآن سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی اورانجیل میں تو حضرت مسیح کا یہ ارشاد تکیہ کلام کے طور پر متواتر پایا جاتا ہے کہ جواپنی صلیب آپ اٹھائے وہ میرے ساتھ چلے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کو لعنتی بننے کا سبق دیتے تھے۔اس وجہ سے یہ مفروضہ باطل ہے اورپھر اگر اسے کسی درجہ میں مان لیا جائے تو خدا انہیں ویسے ہی سولی سے بچا لیتا۔کسی وعدے کی ضرورت تو جب ہوتی کہ دشمن اپنے پروگرام سے حضرت مسیح کوواقف رکھتے اوراس وقت بھی ضرورت اس وعدہ کی تھی کہ: ’’میں تجھے سولی کی موت سے بچاؤں گا۔‘‘نہ اس وعدہ کی کہ: ’’میں تجھے مارڈالوں گا۔‘‘اس لئے یہ معنے عقل اورواقعہ کے خلاف ہیں۔ صحیح معنے توفی کے ہیں۔ پورا پورا قبضہ میں لے لیااورمطلب یہ کہ اﷲ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ!میں تجھے لے لینے والاہوں۔
یہ درست ہے کہ مجازاً توفی کے معنے نیند کے اوراسی طرح موت کے بھی ہیں۔اس لئے کہ نیند سے آدمی کے صرف حواس گم ہوتے ہیں۔ باقی سب کچھ موجود رہتا ہے اورموت سے آدمی