سالوں تک تو ان کی کمائی میں بہت اضافہ ہوچکاتھا۔چنانچہ ۱۹۰۷ء تک ان کی کمائی ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب کسی کالکھ پتی ہونا بہت بڑا اعزاز ہوتاتھا۔
اپنی زندگی کے آخری حصے میں وہ دولت میں کھیلتے رہے۔ان کامعیارزندگی اتنا بلند ہوگیا کہ خود ان کے پیروکار اس پر نکتہ چینی اورناپسندیدگی کااظہار کرنے لگے۔
مرزا قادیانی کی شخصیت
اپنی جوانی کے زمانے میں مرزاقادیانی صرع اوراعصابی دوروں کی بیماریوں میں مبتلا رہے۔کبھی کبھی وہ ہسٹریا کے حملوں کی وجہ سے بے ہوش ہو جایاکرتے تھے۔انہیں ذیابیطس کا مرض بھی تھا۔یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ بعد میں انہوں نے اپنی دو بیماریوں یعنی مراق اورذیا بیطس کو اپنے حق میں ایک دلیل بناکر گھڑ لیا۔انہوں نے لکھا:
’’دیکھو میری بیماری کے متعلق بھی آنحضورﷺ نے پیش گوئی کی تھی جو اس طرح وقوع میں آئی۔آپ نے فرمایاتھا کہ مسیح آسمان پر سے جب اترے گا تو دوزرد چادریں اس نے پہنی ہوئی ہوں گی تواس طرح مجھ کو دوبیماریاںہیں۔ایک اوپر کے دھڑ کی اورایک نیچے کے دھڑ کی۔ ‘‘
(ارشاد مرزاغلام احمد ،مندرجہ رسالہ تشحیذالاذہان،قادیان،ماہ جون ۱۹۰۶ئ)
مرزا قادیانی عربی الفاظ کے صحیح تلفظ سے قاصر تھے۔وہ قریب المخرج عربی حروف کو الگ الگ لہجے میں نہ بول سکتے تھے۔مثلاًق اورک کو ۔بعض اوقات ان کے ملاقاتی ان کی اس کمزوری پراعتراض کرتے تھے۔مگر مرزا قادیانی اپنی صفائی میں کچھ نہ کہہ سکتے تھے۔
(الفضل مورخہ۱۴؍ستمبر۱۹۳۸ئ)
ان کے بعض قریبی عزیز ان کے سخت مخالف تھے۔ان میں ایک مرزا شیر علی صاحب تھے۔جو رشتے میںان کے سالے تھے اوران کے بیٹے مرزا فضل احمد کے خسر بھی۔بڑے وجیہہ انسان تھے۔سفید براق داڑھی اورتسبیح ہاتھ میں۔بہشتی مقبرے کے قریب بیٹھے رہتے اور جو لوگ مرزا سے ملنے آتے انہیں کچھ اس طرح کے الفاظ میں سمجھایا کرتے:
’’مرزا صاحب سے میری قریبی رشتہ داری ہے۔آخر میں نے کیوں نہ اسے مان لیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ ایک دکان ہے جو لوگوں کو لوٹنے کے لئے کھولی گئی ہے۔میں مرزا کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہوں۔ میں اس کے حالات سے خوب واقف ہوں۔اصل میں آمدنی کم تھی۔بھائی نے جائیداد سے بھی محروم کردیا۔اس لئے یہ دکان کھول لی ہے۔آپ لوگوں کے پاس کتابیں اور اشتہار پہنچ جاتے