کرتے ہیں اورخدا ان کے احکام کومان رہا ہے۔معاذ اﷲ پھر انہوں نے سرخ سیاہی کی جو داستان لکھی ہے۔وہ بھی خوب ہے اور ان کے ایک مخلص کے کپڑوں پر جو سرخ سیاہی کے قطرے خدا کے قلم سے جھڑے وہ کہتے ہیں کہ اس سے قسم لے کر اس بات کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔وہ سیاہی سرخ ابھی تک اس کے کپڑوں پرموجود ہے اوراس سے جو قسم لی جائے۔اس کانمونہ بھی انہوں نے دیا ہے۔یعنی وہ اپنے بیٹوں کے سر پر ہاتھ رکھ کرقسم اٹھائے۔خوب رہا ان کا مخلص جو بلاقسم ان کی کرامت لوگوں کو بتانے سے انکاری ہے۔نامعلوم ایسی قسم کا قرآن یا حدیث میں کہاں بیان ہوا ہے اوراس سے حاصل کیا ہوسکتا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مخلص بھی ان کے روزانہ الہامات اورپیشین گوئیوں کی کثرت سے تنگ آگئے تھے یا پھر اپنے مخلص کی انہوں نے تقدیر نہیں بنائی ہو گی۔کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔پھر سیاہی جھاڑنے پر غور کیجئے۔ایک سمجھدار انسان جب قلم کو دوات میں ڈالتا ہے تو ایسے ڈالتا ہے کہ سیاہی ضرورت کے مطابق لگتی ہے اورجھاڑنے کی ضرورت پیش نہیں آتی یاجھاڑے بغیر لکھ لیتا ہے۔مگر خدا تعالیٰ سے اتنا بھی نہ ہوسکا۔معاذاﷲ! اور قلم جوجھاڑا تو ان کے مخلص کے کپڑے سرخ کرڈالے۔ نامعلوم کاغذ اور قلم دوات کہاں گئے اور سرخ سیاہی کے ساتھ وہ کیوں نہیں پائے گئے۔
خدا سے بڑھ کر
’’مجھے الہام ہوا کہ خدا تیرے ساتھ ہے اورخدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑا ہو۔‘‘ (تریاق القلوب ص۴۵،خزائن ج۱۵ج۲۲۷)
’’میں نے نوشتہ قضا قدر کی نصف قید کوہاتھ سے کاٹ دیا۔‘‘(ص۳۲،خزائن ج۱۵ ص۱۹۴)
یا احمد یتم ا سمک ولا یتم اسمی
(تحفہ بغداد ص۲۳،براہین ص۲۴۲،خزائن ج۱ص۲۶۷)
پہلی عبارت میں جس الہام کاذکر ہے۔ وہ شیطانی الہام اورکفر کی بات تو ہے ہی۔ عقلی اشکال اس میں یہ ہے کہ مرزاقادیانی کے پیدا ہونے اورکھڑا ہونے کے بعد تو خدا کومعاذ اﷲ اپنے کھڑا ہونے کا پتہ چل گیا۔مگرجب وہ جنم کی دنیا میں نہیں آئے تھے اورنہ کھڑے ہوتے تھے۔اس وقت خدا کہاںکھڑا تھا اوریہ کہ کسی اورکو ایسا الہام کیوں نہ ہوا۔یہی توضیح الہام کی پرکھ ہے کہ وہ معقول ومشروع ہو۔
حضرت پیران پیر صاحب کے متعلق بیان کیاجاتاہے کہ انہیں آواز آئی اے عبدالقادر! ہم تیری عبادت سے راضی ہوئے ہیں اورتجھ پر تمام حرام چیزیں حلال کر دی ہیں۔یہ