جماعت لاہور کے اعتقادات یہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود نبی اﷲ نہیں ہیں۔بلکہ مجدد ہیں اوریہ کہ ان کے دعوے کے انکار سے کوئی مسلمان کافر نہیںہو جاتا۔‘‘
لاہوری جماعت کے اس دجل وفریب کا پردہ مرزااس طرح چاک کر چکا ہے:
’’کفر دو طرح پر ہے ایک کفر یہ کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اورآنحضرتؐ کو رسول نہیں مانتا۔دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا۔اوراگرغور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۷۹،خزائن ج۲۲ص۱۸۵)
اقوال میں تناقض اورہذیانات میں درجہ بدرجہ ترقی
۱۸۹۱ء میں بیشک مرزاقادیانی کا یہ عقیدہ تھا:
٭ ’’ان تمام امور میں میرا وہی مذہب ہے جو دیگر اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے۔ اب میں مفصلہ ذیل امور کامسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرارکرتاہوں اس خانہ خدا (جامع مسجد دہلی میں)کہ جناب خاتم الانبیائﷺکی ختم نبوت کا قائل ہوںاورجوشخص ختم نبوت کا منکر ہو اسے بے دین اوردائرئہ اسلام سے خارج سمجھتاہوں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ص۲۵۵)
٭ ’’ظاہر ہے کہ اگر ایک ہی دفعہ وحی کانزول فرض کیاجائے اورصرف ایک ہی فقرہ حضرت جبرائیل لادیں اورپھر چپ ہوجاویں،یہ امر بھی ختم نبوت کے منافی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۷۷،خزائن ج۳ص۴۱۱)
اس صحیح صاف اورسچے عقیدہ کے بعدمرزا ولایت ومجددیت کا دعویٰ کرتاہے:
’’ان پر واضح رہے ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں۔’ ’لاالہ الاﷲ محمد رسول اﷲ‘‘کے قائل ہیںاورآنحضرتﷺ کی ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اوروحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت جو زیرسایہ نبوت محمد اورباتباع آنجناب ﷺ اولیاء کو ملتی ہے،اس کے ہم قائل ہیں اوراس سے زیادہ جو شخص ہم پر الزام لگائے وہ تقویٰ اوردیانت کو چھوڑتاہے۔غرض نبوت کا دعویٰ اس طرف بھی نہیں،صرف ولایت اورمجددیت کا دعویٰ ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ص۲۹۷)
یہ ولایت کا دعویٰ کیا اورکیوں؟یہیں سے دماغ کا فساد اورذہن وفکر کی خرابی کا آغاز ہوتا ہے۔’’وحی ولایت‘‘ خود بڑے جھگڑے اورخطرے کی بات ہے۔ اس کے بعد:
’’نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو خدا تعالیٰ کے حکم سے کیاگیا اور اس میں کیاشک ہے کہ محدثیت بھی ایک شعبہ قویہ نبوت کا اپنے اندر رکھتی ہے۔ ‘‘(ازالہ اوہام ص۲،خزائن ج۳ص۳۲۰)پھرکہنے لگا: