M
قادیانی مسئلہ
قادیانی گروہ ،لاہوری گرو ہ اوراحمدیوں کی مخالف اسلام سرگرمیوں (امتناع و سزا) آرڈیننس (۱۹۸۴ئ) کے نفاذ سے قادیانی مسئلہ اپنے حتمی حل کے آخری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جواب تقریباًایک سو سال کاہوچکا ہے۔اس کی ابتداء ایک استعماری طاقت کی انگیخت پرہوئی اورجیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلاگیا۔اس نے نہ صرف برصغیر جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کے درمیان تلخی اورتفرقہ پیداکیا۔بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کی مسلمان اقوام خصوصاًافریقی مسلمان بھی اسی طرح کی تلخی اورتفرقہ کا شکار ہوئے۔
ختم نبوت (یعنی حضرت محمدﷺ خدا کے آخری نبی ہیں)کاتصور اسلام میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔علامہ اقبال فرماتے ہیں ’’کوئی بھی مذہبی معاشرہ جو اپنی اساس کے لئے ایک نئی نبوت کامتقاضی ہو اورتمام ایسے مسلمانوں کو جو(اس نئی نبوت کے)الہامات کو ماننے سے انکار کریں ،کافر قرار دے،اسے ہر مسلمان اسلام کے استحکام کے لئے ایک شدید خطرہ سمجھتا ہے۔ ایسا ہوناضروری ہے کیونکہ مسلمان معاشرے کے استحکام کا تحفظ صرف ختم نبوت کے تصور سے ہی ہوتا ہے۔‘‘
بطور نبی مرزاغلام احمد قادیانی کے ساتھ قادیانیوں کی ارادت انہیں دائرئہ اسلام سے خارج کر دیتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ قادیانیوں نے خود اپنے آپ کو مسلم قومیت سے الگ کیا ہے۔ قادیانی لٹریچر میں متعدد اظہارات اس امر کے ملتے ہیں جن میں کہاگیا ہے کہ ایسے تمام لوگ جو مرزاغلام احمد کی نبوت پر صاد نہیں کرتے۔انہیں مسلمان تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔ مرزا غلام احمد قادیانی خود اپنی تصنیف حقیقت الوحی میں صاف طورپر بیان کرتا ہے کہ: ’’وہ اور ان کے مخالفین ہر دو فریق بیک وقت مسلمان نہیں تسلیم کئے جا سکتے۔‘‘(حقیقت الوحی مطبوعہ قادیان ۱۹۰۷ء ص۱۶۳،۱۶۴، ۱۷۹،۱۸۰ ، خزائن ج۲۲ص۱۶۷،۱۶۸ملخص،وغیرہ)اپنی ایک اورتصنیف ’’انجام آتھم‘‘ میں وہ اپنے مخالفین کو ’’اہل جہنم‘‘ قرار دیتے ہیں۔ (انجام آتھم مطبوعہ قادیان ص۶۲،خزائن ج۱۱ص۶۲)
مرزا غلام احمد کے جانشین جن میں ان کے بیٹے خلیفہ دوم اورقادیانیوں کے مصلح موعود مرزا بشیرالدین محمود احمد بھی شامل ہیں،بعینہ ایسے ہی خیالا ت رکھتے ہیں۔تاہم اس ضمن میں شدید ترین بیان جس میں قادیانیوں اورمسلمانوں کے اختلافات کانچوڑ پیش کیاگیا ہے۔مولوی محمد علی کا