ہوں۔جو ظاہر ہے کہ احمد میں موجود نہیں۔اس پر اپنے نام کا جو چھانٹ کر احمد بنایاتھا۔پلاسٹک کی طرح بڑھایا اور وہ پھیل کر غلام احمدقادیانی ہوگیا۔اب اگر بیسویں صدی سے ان نام کو ملانے کی ضرورت پیش آئی تو اس کے اول مرزا قادیانی اوراخیر خان ہندی پنجابی وغیرہ لگا کر پورا کر دکھاتے ورنہ ظاہر ہے کہ ماں باپ نے تو ان کے نام میں نہ قادیانی ملایاہوگا اور نہ غلام کاٹاہوگا۔
تیسری عبارت میں وہ کسی مجلس کے آدمیوں کی تعداد ایسے الفاظ میں بتاتے ہیں جن کو کوئی جتنے آدمی سمجھ لے۔مرزاقادیانی کے الفاظ اس کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔
چوتھی عبارت میں وہ قرآن کو پیچھے ڈال اورڈارون کے نظریہ پر چل کر حضرت آدم علیہ السلام کو ماں باپ کے ہاں پیدا ہونے والا بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ جڑواں پیدا ہوئے اور پھر کہتے ہیں کہ دیکھ لو میں بھی جڑواں پیداہواہوں۔یہ بات کوئی مسلمان تونہیں کہہ سکتا۔
پانچویں عبارت میں اپنے آپ کو آدم اورخلیفہ ظاہر کرتے ہیں۔گویا خود اپنے باپ ہوئے۔
متعدد جھوٹ
’’حضرت مسیح نے جوحضرت یحییٰ کی نسبت سے کہا تھا کہ جو ایلیا جوآنے والا تھا یہی ہے۔جمہورکے اجماع کے خلاف تھا۔اس وجہ سے انہوں نے نہ مسیح قبول کیا۔نہ یحییٰ کو۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۷۰،خزائن ج۳ص۲۳۷)
اس تھوڑی سے عبارت میں مرزا قادیانی نے جھوٹوں کا انبار لگادیا ہے اوریہی ریت کا تو دہ بنیاد ہے ان کے مثل مسیح ہونے کی۔نہ تو حضرت مسیح نے لوگوں سے یہ فرمایا کہ ایلیاء کے مثل کسی کو آنا تھا اوروہ یحییٰ ہی ہے اور نہ ہی یہ بات لوگوں کے اجماع کے خلاف تھی اور نہ اس وجہ سے لوگ حضرت مسیح اورحضرت یحییٰ کے منکرہوئے۔انہوں نے صرف اپنے شاگردوں سے یہ فرمایا تھا جوشاید وہ حضرت یحییٰ کے حق میں سمجھے ہوںگے اور وہ ان دونوں حضرات کونبی مانتے تھے۔ انجیل کی اصل عبارت ہی آپ دیکھیں اور پھر یہ بھی معلوم کریں کہ اس خالص جھوٹ پر مرزا قادیانی کے مثل مسیح ہونے کا گھروندا کیسے تعمیر ہوگیا؟۔ نہ ایلیا کا آسمان کو جانا تسلیم کیا اور نہ ان کاآسمان سے اترنا دکھائی دیا اورخود اپنی طرف سے حضرت یحییٰ کو ان کے مثل گردانااوراس کے بعد کہا کہ نہ حضرت مسیح آسمان پراٹھائے گئے اور نہ آسمان سے نازل ہوںگے اورمجھے اسی طرح ان کے مثل مانو جیسے یحییٰ ایلیا کے مثل تھے۔مگر یحییٰ نے کب کہا تھا کہ مجھے ایلیا مانو۔یہاں تو بات اور ہے۔ حیرت تو ان کے قادیانی اور لاہوری امتیوں پر ہے جو دن میں دس دس مرتبہ اس کہانی کو سبق کی