دنیا کی قوموں اورامتوں کے حق میں یکساں واقعہ ہوا۔ تمام تاریخی آثار بنی اسماعیل سے ایک نبی کی آمد پر شاہد تھے۔اس لئے دنیا کے کسی آدمی کی زبان پر آنحضرتﷺ کے بارہ میں یہ بات نہیں آئی کہ کوئی نبی آنے والا نہیں۔اگر کسی کو انکار کے لئے کوئی گوشہ مل سکا تو وہ یہی تھا کہ جو آیا ہے یہ وہ نہیں جو آناتھا۔اس سے آگے منکر یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ جو آناتھا وہ فلاں ہے۔اس بناء پر ان کے انکار کے لئے ہٹ دھرمی کے بغیر کوئی معقول بنیاد موجود نہ تھی اس لئے ان پر حجت تمام ہوئی۔
یہ جب حقیقت ہے تو اگر پہلے نبی کی سند کو موجود نہ مانا جائے نہ تو اس کے بعد مسلمانوں اور بت پرستوں کا حال برابر ٹھہرتا ہے۔کیونکہ اس صورت میں تو ماننے والوں نے اسے مانا جسے ماننے کا حکم تھا اور نہ انکار کرنے والوں نے اس کا انکار کیا جس کا انکار منع تھا۔دوسرے الفاظ میں مرزا قادیانی نے جو بات کہی ہے اس سے ان کی نبوت شاید بن جائے۔مگر اس سے کفر اور اسلام ایک ہوکر رہتے ہیں۔ بلکہ اس سے تو سب کہہ سکتے ہیں کہ جس کا ہم نے انکار کیا وہ نبی نہ تھا۔ حالانکہ اس طرح وہ سب کے منکر ہیں۔
تیسری عبارت میں مرزا قادیانی کسی بادشاہ کی کہانی لائے۔نامعلوم وہ کس زمانہ و مقام میں تھا اوراس کی فتح کی جن چار سو نبیوں نے اطلاع دی تھی۔ معلوم نہیں انہوں نے کس جگہ اور زمانہ میں جمع ہوکر یہ اطلاع دی تھی اور وہ کس کے کہے پر جھوٹی ثابت ہوئی۔چار سو نبی تو بہت زیادہ ہوتے ہیں۔مسلمانوں کے ہاں تو ایک نبی کی ایک بات کو جھوٹا بتانا کفر ہے اور خدا کے انکار کے برابر کفر ہے۔یہ وقت بھی آناتھا کہ اس کفرکے مرتکب کو نبی مان لیاگیا۔
انگریزپرستی
’’مسیح کو خدا آسمان سے مدد دے گا۔اب جہاد حرام ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۶۸، خزائن ج۲۲ص۱۷۳ حاشیہ)
’’میں نے ممانعت جہاد اورانگریزی اطاعت کے بارہ میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اورکتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵،خزائن ج۱۵ص۱۵۵)
’’ان حدیثوں سے صریح اورکھلے طور پرانگریزی سلطنت کی تعریف ثابت ہوتی ہے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۹،خزائن ج۱۵ص۱۴۵)
’’آخری مسیح بھی کلمتہ اﷲ ہے اورروح اﷲ بھی ہے۔بلکہ ان دونوں صفات میں وہ پہلے سے زیادہ کامل ہے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵۶، خزائن ج۱۵ص۴۸۴)