استدلال کا یہ کتنا نادرنمونہ ہے کہ چونکہ حدیث میں اہل کتاب کی قبرپرستی کا بیان ہے۔ اس لئے ہو نہیں سکتا کہ حضرت مسیح کی قبر نہ ہو اور لوگ اسے نہ پوجیں۔ مگر اس کے ساتھ وہ قرآن کا یہ بیان بھول جاتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے انبیاء کو قتل کرتے تھے۔اس بیان کے مطابق تو انہوں نے حضرت مسیح کو قتل کیاہوگا۔معاذ اﷲ!پھر وہ کشمیر میں کیسے پہنچ گئے؟۔
یہیں سے وہ مسئلہ حل ہو جاتاہے جو قادیانیوں کے لئے درد سر بنا ہے اور مسلمانوں کو بھی اس میں الجھاتے رہے۔وہ کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی کے پڑھائے پرکہتے ہیں کہ اگر نبیوں کا آنا منقطع ہے تو حضرت مسیح کیوں نازل ہوں گے۔ان کا نزول ختم نبوت کو توڑتا ہے۔اس لئے اسے نہ مانا جائے ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن کا یہ بیان کہ وہ انبیاء کو قتل کرتے تھے۔اسے یہ بیان کیوں نہیں توڑتا کہ انہوں نے حضرت مسیح کوقتل نہیں کیا؟۔
امت سے یہودی
’’حدیثوں سے ثابت ہے کہ اسی امت سے یہود پیدا ہوں گے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۰،خزائن ج۲۲ص۳۲)
یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کہا جائے کہ بکریوں سے ہاتھی ہوںگے۔بھلا کہاں یہ امت اور کہاں یہودی۔ یہ بات اگر کوئی اپنے طور پر کہتا تو پاگل قرارپاتااورجو حدیث سے اس کا حوالہ دے تو سننے والے کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتاہے کہ وہ اپنے آپ کو پاگل سمجھے یا بتانے والے کو۔ دراصل مرزاقادیانی اپنے آپ کو مسیح بتانے لگے اوراپنے منکروں کو یہودی۔اس مقصد کے لئے جس قدر بہتان بھی قرآن وحدیث پر باندھنا پڑا۔اس سے انہوں نے دریغ نہیں کیا اور ہر ذریعہ سے کام لیا۔ نانک کی باتوں سے لے کرشاہ نعمت اﷲ اورگلاب شاہ کی پیشین گوئیوں اور حواریوں کی مرہم کو کام میں لائے بغیر نہیں چھوڑا اورمسیح، مہدی، ذوالقرنین اور سب کچھ بن کر رہے۔ یہ اﷲ کے بغیر کسی کو معلوم نہیں کہ کچھ ہیں بھی یا کچھ نہیں۔ حواریوں کی مرہم وہ ہے جو حضرت مسیح نے سولی سے اتر کر لگائی تھی۔وہ مرہم مرزاقادیانی کے ہاں اس بات کاثبوت ہے کہ حضرت مسیح فوت ہو گئے ہیں۔ اگر سولی پرآپ مرتے یا زندہ اٹھائے جاتے تو وہ مرہم کبھی نہ لگاتے۔جس کامطلب ہے جو آدمی وہ مرہم لگائے۔ وہ مر جاتاہے اورحضرت مسیح نے بھی وہ مرہم مرنے کی غرض سے لگائی تھی۔ یعنی خود کشی کرکے مرے۔معاذ اﷲ!
کلمات کفریہ…ہم بڑے اوربہت بڑے
’’اﷲ تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا اورتمام انبیاء کے نام میری