کا فرض ہے۔چنانچہ میں نے یہ کتابیں بہ زرکثیر چھاپ کر بلاداسلام میں پہنچائی ہیں اورمیں جانتا ہوں کہ ان کتابوں کابہت سا اثر اس ملک پر بھی پڑا ہے اورجو لوگ میرے ساتھ مریدی کا تعلق رکھتے ہیں وہ ایک ایسی جماعت تیار کر رہے ہیں کہ جن کے دل اس گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی سے لبالب ہیں۔ان کی اخلاقی حالت اعلیٰ درجہ پر ہے اورمیں خیال کرتا ہوں کہ وہ تمام اس ملک کے لئے بڑی برکت ہیں اورگورنمنٹ کے لئے دلی جاں نثار۔‘‘
(عریضہ بہ عالی خدمت گورنمنٹ عالیہ انگریزی منجانب مرزا،مجموعہ اشتہارات ج۲ص۳۶۶،۳۶۷)
’’میںسچ کہتا ہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اوربدکار آدمی کا کام ہے۔ سو میرا مذہب جس کو میں بار بارظاہرکرتاہوں،یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کرے دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو۔جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں مجھے پناہ دی ہو۔سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے۔سواگر ہم گورنمنٹ برطانیہ سے سرکشی کریں توگویا اسلام اورخدااوررسول سے سرکشی کرتے ہیں۔‘‘
(شہادت القرآن ص د،خزائن ج۴ص۳۸۰،۳۸۱)
پاکستان کے اندرقادیانی ریاست کے لئے منصوبہ
قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں کی سب سے بڑی گھناؤنی سازش یہ تھی کہ اس نئی اسلامی مملکت کو ایک قادیانی حکومت میں تبدیل کر دیا جائے۔جس کے کرتا دھرتا قادیانی ہوں۔ مملکت پاکستان میں سے ایک حصہ کاٹ کر ایک قادیانی ریاست قائم کی جائے۔ قیام پاکستان کے ایک سال ہی کے اندر قادیانیوں کے سربراہ نے ۲۳؍جولائی۱۹۴۸ء کو کوئٹہ میں ایک تقریر کی جو ۱۳؍ اگست ۱۹۴۸ء کے الفضل میں شائع ہوئی۔امیر جماعت احمدیہ نے اپنے پیروؤں کو مندرجہ ذیل نصائح دیں:
’’برطانوی بلوچستان جسے اب پاک بلوچستان کا نام دیاگیا ہے۔اس کی کل آبادی پانچ لاکھ ہے۔اگرچہ اس صوبہ کی آبادی دوسرے صوبوں کی آبادی سے کم ہے۔لیکن ایک اکائی کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ایک مملکت میں اس کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے ایک معاشرے میں ایک فرد کی۔اس کی مثال کے لئے آدمی امریکہ کے دستور کاحوالہ دے سکتا ہے۔امریکہ میں ہر ریاست کو سینٹ میں برابر نمائندگی ملتی ہے۔چاہے کسی ریاست کی آبادی دس ملین ہو یا ایک سو ملین۔مختصر یہ کہ اگرچہ پاک بلوچستان کی آبادی صرف پانچ لاکھ ہے یا ریاستوں کی آبادی ملا کر دس لاکھ سے زیادہ ہے۔ایک یونٹ کے لحاظ سے اس کی اپنی اہمیت ہے۔ایک بڑی آبادی کو