احمدی بنانا مشکل ہے۔لیکن ایک چھوٹی آبادی کو احمدی بنانا آسان ہے۔اس لئے اگر قوم پوری طرح اس معاملے کی طرف توجہ دے تو اس صوبے کو تھوڑے ہی عرصے میں احمدیت کی طرف لایا جاسکتا ہے۔یاد رکھیں ہمار اتبلیغی مشن کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔جب تک ہمارا ایک مضبوط اڈا نہ ہو۔ تبلیغ کے لئے ایک مضبوط اڈہ ابتدائی ضرورت ہوتا ہے۔لہٰذاآپ کو سب سے پہلے اپنے اڈے کو مضبوط بناناچاہئے۔کسی مقام پر اپنااڈہ بنائیے۔یہ اڈہ کہیں بھی ہو جائے۔اگر ہم اس سارے صوبے کو احمدی بنالیں تو ہم کم از کم ایک صوبے کو اپنا صوبہ کہہ سکتے ہیں اور یہ کام بآسانی کیا جا سکتاہے۔‘‘
یہ تقریر اپنی تشریح خود کرتی ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح قادیانیوں نے پاکستان کے اندر سے اپنا ایک ملک تراشنے کامنصوبہ بنایا تھا۔جیسا کہ انہوں نے رسول اکرمﷺ کی امت کو کاٹ کر اپنی ایک امت بنالی تھی۔
قادیانیت کے خلاف رد عمل
جب سے مرزاغلام احمد کی تحریروں میں انحراف کے اولین آثار نظر آنے لگے۔سچے مسلمانوں نے واضح طورپر اس بات کااظہار کردیا کہ مرزا اوران کے پیرو کافر ہیں اوردائرئہ اسلام سے خارج ہیں۔باقی علماء کے مقابلے میں علامہ اقبال ان پر زیادہ سختی سے معترض تھے۔وہ انہیں اسلام کاغدار کہتے ہیں۔اگرچہ علمائے دین کا ایک بڑا طبقہ ایسا تھا جس نے مرزا کے ارادوں کو ان کے مذہبی منصب کو ابتداء ہی میں بھانپ لیا تھا۔تاہم بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں عام لوگوں نے ان کے حتمی ارادوںکو سمجھا۔علماء اپنی دینی بصیرت کے بل بوتے پرقادیانی مسئلہ کو مذہبی ہتھیاروں سے حل کرنے میں مصروف تھے۔کیونکہ ان کی نگاہ میں ایک خالصتاً مذہبی تحریک تھی اور وہ اس کے مقابلے کے لئے ویسے ہی ہتھیار لے کر میدان میں اترے تھے۔غالباً علامہ اقبال پہلے شخص تھے جنہوں نے اس تحریک کے چہرے سے نقاب اٹھایا۔ان کاخیال تھاکہ بانی تحریک کے الہامات کی بااحتیاط نفسیاتی تحلیل شاید اس کی شخصیت کی اندرونی زندگی کے تجزیہ کے لئے موثر ثابت ہو سکے۔
قادیانی تحریک کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسلمانوں کی مذہبی فکر کی تاریخ میں احمدیت کا کردار یہ ہے کہ ہندوستان کی موجودہ سیاسی محکومی کے لئے ایک الہامی بنیاد مہیا کی جائے۔قادیانیوں کے سیاسی کردار پرتبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:’’یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے کہ قادیانی بھی ہندی مسلمانوں کی سیاسی بیداری پر پریشان ہورہے ہیں۔کیونکہ وہ