ہیں۔آپ سمجھتے ہیں کہ پتہ نہیں کتنا بڑا بزرگ ہو گا۔پتہ تو ہم کو ہے جو دن رات اس کے پاس رہتے ہیں۔یہ باتیں میں نے آپ کی خیر خواہی کے لئے آپ کو بتائی ہیں۔‘‘
(تقریر مرزا بشیر الدین محمود جلسہ سالانہ ۱۹۴۵ئ،مطبوعہ الفضل ۱۷؍اپریل ۱۹۴۶ئ)
مرزاقادیانی کی تحریروں کو پڑھنا ایک خشک اورغیر دلچسپ مشغلہ ہوتاہے۔کیونکہ ان کی سب تحریروں میں نہ توعلمی رنگ ہوتا ہے نہ ادبی چاشنی۔مسائل سے نمٹنے کا ان کا انداز بڑا پھسپھسا تھا۔ ان کی تحریر تیسرے درجے کی زمانہ وسطی کی تحریروں کی طرح تھی۔وہ اپنے مخالفین کو دل کھول کر کوستے اورکبھی کبھی گالیاں دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ان کی بہت سی تحریریں نام نہاد پیش گوئیوں سے بھری پڑی ہیں۔جو ان کے مخالفین کی موت کے بارے میںہوتی ہیں۔
مرزاغلام احمد کے دعوے
قادیانیت کا گہرا مطالعہ کرنے والے فاضلین نے مرزاقادیانی کے دعوؤں کی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کیاہے۔
۱… پہلا دور۱۸۵۸ء سے لے کر ۱۸۷۹ء تک کا ہے۔اس دور میں مرزا قادیانی نے کسی قسم کا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔بلکہ انہیں ایک مقامی مبلغ اسلام کی حیثیت سے شہرت حاصل تھی۔ایک ایسا مبلغ جو شمالی پنجاب میں عیسائی مشنریوں،ہندوپنڈتوں اورآریہ سماجی ودوانوں سے مذہبی بحث مباحثوں میں مصروف رہتاتھا۔
۲… دوسرا دور ۱۸۷۹ء سے لے کر ۱۸۸۸ء تک کاہے۔اس زمانے میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انہیں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تجدید دین کے اہم کام پر مامور کیاگیا ہے۔تجدید دین کا یہ منصب انہیں مثیل مسیحا کی حیثیت سے دیاگیاہے۔مثیل مسیحا ایسا شخص ہوتا ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح کا ہو۔
۳… ۱۸۸۸ء سے ۱۹۰۱ء تک کا تیسرا دور وہ ہے۔جس میں انہوں نے مسیح موعود یا ظلی نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔یعنی ایک ایسا نبی جو آنحضرتﷺ کی متابعت میںاورآپؐ کے زیرسایہ ہو۔
۴… ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۸ء تک کادوروہ ہے جس میں انہوں نے نبوت کادعویٰ کیا اور کہا کہ وہ لفظ نبی کے مکمل معنوں میں نبی ہیں۔
مرزاغلام احمد کے دعوے اتنے الجھے ہوئے اوراتنے متنوع ہیں کہ الجھاوؤں کے اس ڈھیر کوسائنسی اوردانشور انہ تحریروں کے قالب میں ڈھالنا انتہائی مشکل کام ہے۔دعوے بسا اوقات باہم دگر ایسے متصادم ہو تے ہیں اوربسا اوقات مضحکہ خیز بھی ہوتے ہیں کہ ان کو صاف اور