اوراس کے مشن کا ایک حصہ باقی تھا۔اس کادوبارہ لوگوں کے پاس وارد ہونا ختم نبوت کے منافی نہیں۔ جس سے نئے نبی کا نیا عقیدہ لازم نہ آئے۔
اب آپ قاعدہ اورزبان کی طرف آئیے۔ دونوں احادیث کے آخر ترجمہ میں ’’وہ‘‘ کا لفظ موجود ہے۔اسے ضمیر کہاجاتاہے۔اس کاقاعدہ ہے کہ یہ اسم کے لئے آتا ہے او راسم کے بعد آتا ہے۔اگر اس قاعدہ کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیں تو اس عبارت میں ایک اسم اوراس کی صفت ہے۔ یعنی ابوبکر اوریہ ضمیر اسی کا ہے۔اس عبارت کو ذرا یہ شکل دیں اوردیکھیں:
’’ابوبکر افضل ھذھ الا امۃ الاان یکون زید‘‘ابوبکر اس امت سے افضل ہے۔سوائے اس بات کے کہ وہ زید ہو۔‘‘
اس کا مطلب یہ نہیںکہ جو اورزید ہوں گے وہ ابوبکر سے افضل ہوجائیں گے۔بلکہ مفہوم یہ ہے کہ ابوبکر سب امت سے افضل توہے مگر وہ زید کے مرتبہ کا نہیں۔ اس زید کے مرتبہ کا جو پیدا ہوچکا ہے۔مقصود یہ کہ ابوبکرسب کچھ ہے۔ مگر نبی نہیں۔اس کے ساتھ (کوئی نبی ہو جائے گا تو ابوبکر اس کے برابرنہ ہوگا) یہ قصہ اگر ملایا جائے تو مطلب یہ سامنے آتا ہے کہ جو بعد میں کوئی نبی ہو گا۔ابوبکر اس سے افضل نہیں۔ دوسرے سب انبیاء سے تو افضل ہے۔معاذاﷲ!
ایمانیات کا مذاق
’’اگر ظاہر پر ان حدیثوں کا حمل کرنا ہے تو چند قبروں کوکھودو اوران میں سانپ اور بچھو دکھاؤ۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۴۱۵،خزائن ج۳ص۳۱۶)
مرزاقادیانی کا کہنا ہے کہ اگر ختم نبوت اورنزول مسیح کی احادیث کے لفظی معنی ہی لوگ لیتے ہیں تو انہیں عذاب قبر کی احادیث کے بھی لفظی معنے قبول کرنے چاہئیں اوراگر حدیث میں قبر کے اندرسانپوں اوربچھوؤں کا عذاب سنایاگیا ہے تو کسی ایک آدھ قبر سے سانپ اوربچھوؤں وغیرہ کا مشاہدہ ہمیں کراؤ۔اسے کہتے ہیں’’گھوڑے کی بلاطویلا کے سر۔‘‘مرزاقادیانی کو خود عذاب قبر کے بارے میں شک تھا اوربے چارے مولویوں کو اس محنت میں ڈالا کہ مجھے قبر کا عذاب دکھاؤ اور وہ بھی قبریں کھود کر اورکھدائی کی مشقت بھی تم ہی اٹھاؤ۔کبھی دنیا میں ایسا ہو اہے کہ مشقت ایک آدمی اٹھائے اور شک دوسرے کازائل ہو۔پھر جلد بازی یہ کہ نہ قبریں کھودیں نہ یہ معلوم کیا کہ کس قبرکا مردہ سانپ اور بچھوؤں کے عذاب کا مستحق ہے اور کیوں ہے؟۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آدمی کی قبر سانپوں کا گھر ہوناہو۔مگر وہ تو بہ کر کے مرا ہویا اس کے حقوق ادا کردیئے ہوں۔ یہ سب کچھ سوچے سمجھے بغیر انہوں نے نہ صرف عذاب قبر کاانکار کیا بلکہ اس کامذاق بھی اڑایا۔ایک پیغمبر کا کام سوائے