’’ہلاک ہو گئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہیں کیا۔مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا۔ میں خدا کی راہوں میں سے آخری راہ ہوں اوراس کے نوروں سے میں آخری نور ہوں بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے۔کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔‘‘
(کشتی نوح ص۵۶،خزائن ج۱۹ص۶۱)
وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ’’دروغ گو راحافظ نباشد‘‘ تو مرزا کے دروغ گو اورجھوٹے ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کے کلام میں حد درجہ تناقض پایا جاتاہے۔کبھی کچھ کہتا ہے اورکبھی کچھ۔ اس کے اقوال اوراحوال گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں۔ اس کے یہاں ایسے اقوال بھی ملتے ہیں جن میں دعویٰ کا انکارہے مگر بعض دوسرے اقوال میں اس کے نبی ہونے کا دعویٰ بھی ہے۔وہ خود کہتا ہے :
’’جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۱۱، خزائن ج۲۱ ص۲۷۵)تواپنے ہی قول کی رو سے کلام میں تناقض ہونے کے سبب مرزا جھوٹا قرار پاتاہے۔یہی وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بولاکرتا ہے اوراﷲ تعالیٰ اسی دنیا میں جھوٹوں اورلپاڑیوں کے کذب و افتراء کا پردہ چاک کر دیتا ہے۔
انگریزی حکومت کی نیاز مندی
مرزاغلام احمدقادیانی کی سیرت وکردار کی یہی جھلک اسے بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ کی وفاداری اورنیاز مندی پر اس نے فخر کیاہے:
مرزا نے لکھا ہے کہ: ’’میں نے کوئی کتاب یااشتہار ایسا نہیں لکھا جس میں گورنمنٹ کی وفاداری اوراطاعت کی طرف اپنی جماعت کو متوجہ نہیںکیا اور اس لئے میری نصیحت اپنی جماعت کو یہی ہے کہ وہ انگریزوں کی بادشاہت کو اپنے اولی الامر میں داخل کریں اوردل کی سچائی سے ان کے مطیع رہیں۔ ‘‘(ضرورت الامام ص۲۳،خزائن ج۱۳ص۴۹۳)جوشخص اپنے کونبوت کا ظل اور بزور کہتا ہے وہ قرآن کے اولی الامر سے یہ مفہوم اخذ کرتا ہے کہ انگریزی حکومت اس حکم میں داخل ہے اوراس کافر حکومت کی اطاعت منصوص ہے۔
’’یہ وہ فرقہ ہے جو فرقہ احمدیہ کے نام سے مشہور ہے اورپنجاب اور ہندوستان او ر دیگر متفرق مقامات میں پھیلاہواہے۔یہی وہ فرقہ ہے جو دن رات کوشش کررہا ہے کہ مسلمانوں کے