از مرون عیسیٰ دروز قیامت باشدعیسیٰ گواہ برایشاں‘‘حاشیہ میں اس کامطلب یہ لکھتے ہیں:’’یعنی یہودی کہ حاضر شوند نزول عیسیٰ راالبتہ ایمان آرند۔‘‘
مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول قادیان اپنی کتاب فصل الحظاب ج دوم کے ص۸۰ پر لکھتے ہیں:’’نہیں کوئی اہل کتاب میں سے ،مگر البتہ ایمان لاوے گا۔ساتھ اس کے پہلے موت اس کی کے اوردن قیامت کے ہوگا وہ اس کے گواہ۔‘‘کیا آپ خلیفہ اول کے معنے بھی غلط قرار دیں گے؟۔
مرزاقادیانی کا ترجمہ ’’الحق‘‘ دہلی کے ص۳۲،خزائن ج۴ص۱۶۲ پر یہ ہے:’’کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان نہیں لائے گا۔دیکھو یہ بھی توخالص استقبال ہی ہے۔ کیونکہ آیت اپنے نزول کے بعد کے زمانہ کی خبردیتی ہے۔بلکہ ان معنوں پر آیت کی دلالت صریحہ ہے۔‘‘
مرزا قادیانی نے اعتراف کیا ہے کہ آیت اپنے نزول کے بعد کے زمانہ کی خبردیتی ہے۔ اگر ہر اہل کتاب نے اپنی موت سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا ہے ۔تو یہ آیت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے لے کر نزول قرآن کے زمانے تک مرنے والے تمام اہل کتاب پر حاوی ہونی چاہئے۔لیکن مرزاقادیانی کے اعتراف کے مطابق یہ ان پر حاوی نہیںہوسکتی۔ کیونکہ اس کااطلاق نزول قرآن کے بعد مرنے والے اہل کتاب پر ہی ہو سکتاہے۔ اس لئے موتہ کا مرجع کتابی نہیں ہو سکتا۔اسی وجہ سے ابی بن کعبؓ کی قرأت ’’قبل موتھم ‘‘مردود ہے۔
(ازالہ اوہام ص۳۷۲،خزائن ج۳ص۲۹۰)پرمرزا قادیانی ترجمہ یوں کرتے ہیں:’’کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو ہمارے اس بیان مذکورہ پر …ایمان نہ رکھتا ہو(قبل موتہ) قبل اس کے کہ اس حقیقت پر ایمان لاوے کہ مسیح اپنی طبعی موت سے مر گیا۔‘‘
یہ ترجمہ کرتے ہوئے مرزا قادیانی نے ’’موتہ‘‘ کی ضمیر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھیری ہے۔’’وھوالمراد،الی یوم القیامۃ‘‘سے مراد یوم قیامت کو چھونا نہیں ہوتا۔
قرآن پاک میں ہے:’’قل اﷲ یحییکم ثم یمیتکم ثم یجمعکم الی یوم القیامۃ لاریب فیہ‘‘{آپ کہہ دیجئے کہ اﷲ ہی تم کو زندہ رکھتا ہے۔پھر وہی تمہیںموت دیتا ہے۔پھر وہی تمہیں قیامت کے دن اکٹھاکرے گا۔}
اس آیت سے ظاہر ہے کہ قیامت کے دن سے مراد وہ دن ہے جب مردے زندہ کئے جائیں گے اور یہ دن دنیا کی ہلاکت کے بعد آئے گا۔اس دن یہود اور نصاریٰ کا وجود نہیں ہو گا۔