السلام کا نزول یقینی ہے۔نصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام کی امت ہیں۔ اس امت کے اول میں عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔لیکن محمدﷺ اس امت کے آخر میں شمار نہیں ہو سکتے۔کیونکہ وہ اس امت میں سے نہیں۔ ان کامقام امت محمدیہ کے اول میں ہی ہو سکتاہے۔امت محمدیہ کے آخر میں عیسیٰ علیہ السلام کا ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری بحیثیت رسول کے نہیں ہوگی۔سو ان کا شمار امت محمدیہ میں ہوگا۔کسی نئی امت کی ابتداء نہیں کریںگے۔
ان احادیث میں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے نزول کی خبر ہے اورہرگز ہرگز کوئی قرینہ نہیں جس سے کہ عیسیٰ علیہ السلام کاوجود غیراز مسیح کا وجود سمجھاجائے۔
سوال نمبر:۵۲… آپ ص۶۳پر لکھتے ہیں: ’’استعارہ صرف اس وقت کہلاتا ہے جبکہ مستعارلہ(مشبہ) کا ذکر بالکل لپیٹ دیا جائے اورکلام کو اس سے خالی رکھاجائے۔‘‘
جواب… آپ کی اس تعریف کے مطابق شبہ کاذکر کلام میں ہونا ضروری ہے۔ مذکورہ بالا احادیث میں یہ شرط نہیں پائی جاتی۔پس عیسیٰ علیہ السلام بن مریم کے ظہور کی پیشینگوئیاں بطور استعارہ کے نہیں۔
سوال نمبر:۵۳… ص ۶۶پر لکھتے ہیں:’’جناب میاں صاحب!آپ نے آیت قرآنیہ :’’وان من اھل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل الموتہ‘‘سے یہ استدلال کیا تھا کہ آخری زمانہ میں جب ابن مریم نازل ہوںگے تو سب اہل کتاب ان کی موت سے پہلے ان پرایمان لائیں گے۔ہم نے اس کے جواب میں آپ کو قرآن کریم کی آیت:’’وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ‘‘سے سمجھایاتھا کہ آپ کے یہ معنی غلط ہیں۔کیونکہ قرآن مجید کی اس آیت کی رو سے ظاہر ہے کہ یہود کا وجود جو منکر مسیح ہیں۔قیامت کے دن تک رہے گا۔آپ اس کاکوئی معقول جواب نہیں دے سکتے اورپھر یہ لکھ رہے ہیں۔’’آپ کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے ۔ کل مخلوق مسیح موعود کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی۔ ہم نے آپ کو جواب دیاتھا کہ اگر ہم میں سے کسی نے ایسی عبارت لکھی ہے تو مراد اس کی یہ ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں اسلام کا کل ادیان پر غلبہ ہوجائے گا اوراکثریت اسلام میں داخل ہو جائے گی اورتین صدیوں میں ایسا ہوگا۔کل کالفظ ایسی عبارتوں میں ’’الاکثر حکم الکل‘‘کے معنوں میں استعمال ہوگا۔کیونکہ نادر کالمعدوم ہوتاہے۔‘‘
جواب… میرے معنے غلط نہیں ہیں۔حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ کوآپ مجدد صدی مانتے ہیں۔ ان کا ترجمہ یہ ہے:’’دنبا شد، ہیچ کس از اہل کتاب البتہ ایمان آورد بعیسیٰ پیش