لفظ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ تو مراد اس سے یہی ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ حیات میں مذہبی جنگیں ختم ہوچکی ہوں گی۔ چنانچہ آپ کے دعوے کے وقت ایسا وقوع میں آچکا ہے۔اگر اس جگہ الحرب سے مراد مطلق لڑائی لی جائے تو ان معنوں کی توجیہ ہم اپنے تحریری جواب میں جو آپ کے ستر نکات کے جواب میں لکھا گیا،لکھ چکے ہیں۔ اسے دوبارہ پڑھیں۔ اس صورت میں تضع الحرب اوزارھا کا تعلق زمانہ مسیح موعود سے بلحاظ قرون ثلاثہ کے ہے کہ اس زمانہ میں اسلام دنیا میں غالب آجائے گا اوردنیا کی اکثریت مسلمان ہو جائے گی اورہر قسم کی لڑائی بند ہو جائے گی۔ انشاء اﷲ۔ اس سے پہلے پہلے ملکی لڑائیاں جاری رہیں گی۔چنانچہ حدیثوں میںمسیح موعود کے زمانہ میں یاجوج ماجوج کے خروج کا ذکر ہے جو قرآنی بیان کے مطابق یموج بعضھم فی بعض کا مصدق بننے والے تھے۔ یعنی ایک دوسرے کے خلاف انہوں نے سمندر کی لہروں کی طرح اٹھتے رہناتھا اورصحیح مسلم کی حدیث نبوی میں انہی کے متعلق وارد معلوم ہوتاہے۔
’’انی قد اخرجت عباداً لی لایران لاحربقتالھم‘‘کہ میں نے اپنے ایسے بندے نکالے ہیں کہ کسی کو ان سے لڑنے کی طاقت نہیں ہوگی۔‘‘
علامہ طبرانی نے اوسط والصغیر ج۱ ص۲۵۷ میں ایک حدیث نقل کی ہے:’’عن ابی ھریرۃ قال رسول اﷲ ﷺ الا ان عیسیٰ ابن مریم لیس بینی وبینہ نبی ولارسول الا انہ خلیفتی فی امتی من بعد یقتل الدجال ویکسر الصلیب وتضع الجزیۃ وتضع الحرب اوزارہا،الامن ادرکہ فلیقراء منکم علیہ السلام‘‘{حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسولﷺ نے فرمایا بیشک میرے اورعیسیٰ بن مریم کے درمیان کوئی نبی اوررسول نہیں۔ سنو یقیناوہ میری امت میں میرے بعد میرا خلیفہ ہے۔ سنو بیشک وہ دجال کو قتل کرے گا اورصلیب کوتوڑے گا اورجزیہ موقوف کر دے گا اورلڑائی اپنے اوزاررکھ دے گی۔سنو جو تم میں سے اسے پائے تواسے السلام علیکم کہے۔}
سوال نمبر:۵۰… آپ نے ص۵۶ پرلکھا ہے:’’مسیح موعود جزیہ کو بھی تب ہی موقوف کر سکتا ہے جب لڑائی کے موقوف کر دینے کااعلان کیاجائے۔‘‘
جواب… گویا عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ہر قسم کی جنگ ختم ہو جانی چاہئے۔یہ بلحاظ قرون ثلاثہ آپ نے کہاں سے نکالا اورپھر کہہ رہے ہیں۔ اس سے پہلے پہلے ملکی لڑائیاں جاری رہیں گی۔لڑائی کے اوزار رکھنے سے پہلے ملکی لڑائیاں جاری رہنے کا کہاں ذکر ہے؟۔جزیہ موقوف کرنے کاذکر ہے اوریہ آپ نے تسلیم کیا ہے کہ جزیہ موقوف ہونے سے جنگ موقوف ہوجائے