ہے۔}
مرزا قادیانی اپنی کتاب (ازالہ اوہام ص۱۳۸،خزائن ج۳ص۱۷۰)پرلکھتے ہیں:’’ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اوراحکام اوراوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتا اوراب کوئی ایسی وحی اور الہام من جانب اﷲ نہیں ہوسکتا جواحکام فرقانی کی ترمیم وتنسیخ یا کسی ایک حکم کی تبدیلی یاتغیر کرسکتاہو۔اگر کوئی ایساخیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مؤمنین سے خارج اورملحد اورکافر ہے۔‘‘
قارئین خود ہی فیصلہ فرمالیں کہ قران کے جہاد کے حکم کو منسوخ کرکے مرزا قادیانی اپنے ہی فیصلے کے مطابق کیا ٹھہرتے ہیں؟میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ ’’حرب‘‘ کے معنے مذہبی جنگ کے نہیں ہو سکتے۔میرا کہنا یہ تھا کہ حرب کے معنی مطلق جنگ کے ہیں۔ اسی میں مذہبی جنگ بھی شامل ہے۔
سوال نمبر:۴۸… ص۵۷،۵۸پر لکھتے ہیں:’’مسیح موعود کے زمانہ حیات میں کفار نے چونکہ مسلمانوں سے مذہبی لڑائی ختم کی ہوئی تھی اورجہاد بالسیف کی شرائط موجود نہ رہی تھیں۔اس پر مسیح موعود علیہ السلام نے حسب حدیث نبوی یضع الحرب کافروں کی مذہبی لڑائی آئندہ یہ کہہ کر موقوف قرار دے دیا کہ اب ہمارالڑنا تم سے جائز نہیں رہا۔ کیونکہ جہاد بالسیف کی شرائط موجود نہیں لہٰذا ہم تم سے مذہبی لڑائی نہیں لڑیں گے۔‘‘
جواب… گزشتہ صفحات میں ثابت کیاجاچکا ہے کہ مرزا قادیانی اپنے قول کے مطابق مسیح موعود نہیں۔ لہٰذا یضع الحرب کی بحث لاحاصل ہے اور آپ کا راست باز نہ ہونا اس بات سے ظاہر ہے کہ ص۵۶پر آپ لکھتے ہیں:’’آپ کو مرزاقادیانی کا جنگوں کو ملتوی قرار دینا نظرآئے گا۔‘‘ص۵۸پر لکھتے ہیں کہ:’’مرزا قادیانی نے حسب حدیث نبوی یضع الحرب کافروں کی مذہبی لڑائی کو آئندہ یہ کہہ کر موقوف قرار دے دیا۔‘‘
آپ کے نزدیک ملتوی کرنا اورموقوف قراردے دینا ہم معنی ہیں؟اﷲ کے بندے جب مرزاقادیانی خود مسیح موعود ہونے سے انکار کر چکے ہیں۔ انہیں زبردستی مسیح موعود کیوں بناتے ہو؟ان کے دعویٰ کے مطابق انہیں مثیل مسیح کیوں نہیں کہتے۔مسیح موعود تو مرزاقادیانی کے اپنے قول کے مطابق عیسیٰ ابن مریم ہیں۔
سوال نمبر:۴۹… ص۵۹ پر لکھتے ہیں:’’نزول مسیح کی ایک حدیث میں جو ’’تضع الحرب اوزارہا‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اگر الحرب سے مراد مذہبی جنگ لی جائے جیسا کہ قرآن میں یہ