نقل کر دیا ہوتا:’’آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتاتھا۔خداکے حکم سے بند ہے۔میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں۔‘‘
سوال نمبر:۴۷… آپ کو ص۵۷ پر یہ لکھنے کی جرأت کیسے ہوئی:’’پس دشمن کے مذہبی جنگ چھیڑنے پر جہاد بالسیف کاحکم عود کرآئے گا اورواجب العمل ہو جائے گا۔کیونکہ اسلام میں جہاد باالسیف یعنی القتال مسلمانوںکی طرف سے اسی صورت میں کیاجاسکتاہے ۔جبکہ حملہ میں ابتداء کافروں کی طرف سے ہو۔‘‘
جواب… جب مرزا قادیانی کے ظہور کے تلوار کاجہاد ہے ہی نہیں تو جہاد کاحکم کیسے عود کر آئے گا۔ (ضمیمہ خطبہ الہامیہ ص ت، خزائن ج۱۶ص۱۷)میںمرزا قادیانی لکھتے ہیں:’’سو آج سے دین کے لئے لڑناحرام کیاگیا۔اب اس کے بعد جو دین کے لئے تلواراٹھاتا ہے اورغازی نام رکھ کر کافروں کو قتل کرتاہے۔ وہ خدا اوراس کے رسول کا نافرمان ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ص۲۹۸،۲۹۷،ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۷،خزائن ج۱۷ص۷۸،۷۷)پر مرزا قادیانی کے یہ اشعار موجود ہیں:
اب چھوڑدو جہاد کااے دوستو خیال
دین کے لئے حرام ہے اب جنگ وقتال
اب آسماں سے نور خداکا نزول ہے
اب جنگ وجہاد کا فتویٰ فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کاجو کرتا ہے اب جہاد
منکرنبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
قرآن مجید میں جہاد کا حکم قیامت تک نافذ العمل ہے۔اس ضمن میں آخری احکام سورئہ توبہ کے اندر موجود ہیں۔ان میں یہ پابندی نہیں کہ جہاد اسی صورت میں فرض ہے کہ حملہ کی ابتداء کفار کی طرف سے ہو اور نہ ہی ایسے حالات کا ذکر ہے جس میں کہ اسے بند یا ملتوی کیاجا سکتاہے۔ یہ آخری احکام ہیں جو آنحضرتﷺ کے وصال کے قریب نازل ہوئے۔ سورئہ توبہ کے تیسرے رکوع کی آیات کا ترجمہ یہ ہے{اہل کتاب میں ان سے لڑو جو نہ اﷲ پرایمان رکھتے ہیں اور نہ روز آخرت پر اورنہ ان چیزوں کوحرام سمجھتے ہیں جنہیں اﷲ اوراس کے رسول نے حرام کیا ہے اورنہ سچے دین کو قبول کرتے ہیں۔یہاں تک کہ وہ رعیت ہوکر جزیہ دیںاپنی پستی کا احساس کر کے۔}اس سورئہ کے رکوع ۹ میں ہے {اے نبی !کافروں اورمنافقوں سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے اوران کاٹھکانہ دوزخ ہے اوروہ بری جگہ ہے۔}
اسی کے رکوع ۱۴میں ہے{اے ایمان والو!ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے آس پاس ہیں اوران کو تمہارے اندرسختی پاناہے اورجانے رہو کہ اﷲ توپرہیز گاروں کے ساتھ