بولتے کیا تھے موتی رولتے تھے۔ تحقیق کے خوگر، قلم وقرطاس کے دھنی اور کتاب بینی کے رسیا تھے۔ چنیوٹ کی سالانہ ختم نبوت کانفرنسوں پر تشریف لانا عمر بھر کا معمول رہا۔ ان دنوں قادیانی جلسہ چناب نگر میں بھی انہیں تاریخوں میں ہوتا تھا۔ وہ چنیوٹ سے چناب نگر جاتے اور قادیانیوں سے سابقہ قیام قادیان کی وجہ سے جو تعارف پہلے سے موجود تھا اس سے فائدہ اٹھاتے اور قادیانیوں کی نئی مطبوعات خرید لاتے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت فقیروالی کے آپ امیر تھے۔ عالمی مجلس کے مرکزی رہنما حضرت مولانا عبدالرحیم اشعرؒ بھی کتابوں کے رسیا تھے۔ دونوں حضرات چنیوٹ کانفرنس پر جمع ہوتے، سر جوڑتے، فہرست تیار ہوتی۔ شام کو تمام نئی قادیانی کتب مولانا عبدالرحیم اشعرؒ کے بستر پر لاکر باؤ تاج محمد صاحب ڈھیر کر دیتے۔
باؤ تاج محمد صاحب کا کتب خانہ خود بھی قادیانی اور ردقادیانی کتب کے حوالہ سے وقیع کتب خانہ تھا۔ ان کے پاس بعض قادیانی کتب ایسی تھیں جو مجلس کی مرکزی لائبریری کے لئے مولانا عبدالرحیم اشعرؒ کو فوٹوکرانی پڑیں اور یہی کتابیں قومی اسمبلی میں جب قادیانی کیس پیش ہوا تو وہاں بھی کام آئیں۔ باؤ تاج محمد صاحب کے ایک بھائی غالباً تاثیر نام تھا ملتان میں ہوتے تھے۔ ان سے ملاقات کے لئے ملتان تشریف لاتے تو زیادہ وقت ان کا مولانا عبدالرحیم اشعرؒ کے ہمراہ ملتان کی لائبریری میں گزرتا۔ خوب شریف النفس انسان تھے۔ شرم وحیائ، اخلاق وکردار کی بلندی کا یہ عالم تھا کہ قادیان ایسے قحبہ خانے معصیتوں کے گڑھ میں بھی سالہا سال رہے۔ لیکن دشمن بھی آپ کی پاک دامنی کا معترف رہا۔ ان کی اس ذاتی شرافت کا یہ عالم تھا کہ ان کے قادیانی شاگرد بھی ان کے وضو کے پانی سے اشنان کرنے کو سعادت گردانتے تھے۔ باؤ تاج محمد صاحب سے فقیر کو ذاتی نیاز مندی کا شرف حاصل ہے۔ فقیر والی، ملتان، چنیوٹ میں آپ سے بارہا ملاقاتیں ہوئیں۔ جب بھی ملاقات ہوئی ان کی طرف سے شفقت اور فقیر کی طرف سے نیازمندی میں اضافہ ہوجاتا۔ آپ کا وصال ۱۹۸۹ء میں ہوا۔
ان کے بعد ایک بار ان کے ذاتی کتب خانہ سے بہت ساری کتابوں کا ڈھیر ملتان اٹھا لایا۔ فوٹو کرائے اور اصل واپس کر دیں۔ قاری عبدالخالق بنگلہ یتیم والا واسطہ بنے۔ ارائیں برادری اور رشتہ داری باؤ صاحب کے عزیزوں سے قاری عبدالخالق صاحب رکھتے ہیں۔ یہی کام آئی اور اعتبار کا ذریعہ بنی۔ مرحوم کا کتب خانہ ان کے صاحبزادہ برادرم نثار صاحب کے پاس تھا۔ اس سال