صحابہ وتابعین سے اس باب میں متعدد روایتیں بیان کی ہیں۔ جن کے مجموعے سے امام مہدی کی آمد کا قطعی یقین حاصل ہو جاتا ہے۔لہٰذا امام مہدی کی تشریف آوری پر حسب بیان علماء اور حسب عقائد اہل سنت والجماعت یقین کرنا ضروری ہے۔
اسی طرح حافظ سیوطیؒ نے بھی یہاں تواتر معنوی کادعویٰ کیا ہے۔ حافظ ذہبیؒ مختصر منہاج السنہ کے ص۵۳۴پر تحریر فرماتے ہیں:’’الاحادیث التی یحتج بھاعلے خروج المھدی صحاح رواہ احمد وابوداؤدمنھا حدیث حدیث ابن مسعود وام سلمۃ وابی سعید وعلی‘‘{یعنی جن حدیثوں سے امام مہدی کے خروج پر استدلال کیاگیا ہے وہ صحیح ہیں۔ ان کو امام احمد،امام ابوداؤد اورامام ترمذی نے روایت فرمایا ہے کہ ان میں سے ابن مسعودؓ، ام سلمہؓ،ابوسعید ؓ اور علیؓ کی حدیثیں ہیں۔ ترمذی اور ابوداؤد کی روایت کا ترجمہ یہ ہے: {حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا اگر دنیا کے فنا ہونے میں صرف ایک ہی دن باقی رہ جائے گاتوخدا تعالیٰ اس دن کو دراز کرے گا۔یہاں تک کہ اب بزرگ و برتر میرے خاندان میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جس کا نام میرے نام پر ہوگا اورجس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام پر ہوگا۔ وہ زمین کوعدل وانصاف سے معمور کر دے گا۔جس طرح کہ وہ اس وقت سے پہلے ظلم وستم سے معمور تھی۔}ابوداؤد نے ام سلمہؓ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے {رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ مہدی میری عترت یعنی اولاد فاطمہؓ سے ہوگا۔}
مرزاغلام احمدقادیانی نے اس خیال کی تردید کی ہے کہ مہدی بنی فاطمہ اورحسین کی اولاد سے ہوگا۔ سو وہ مہدی موعود نہیں ہوسکتے۔
سوال نمبر:۴۱… ص۵۳پر لکھتے ہیں:’’مسیح موعود کا امام ہونا اورامت میں سے امام ہونا تو بخاری اورمسلم سے ثابت کیا جا چکا ہے۔بخاری میں نازل ہونے والے مسیح ابن مریم کو ’’امامکم منکم‘‘قرار دیاگیا ہے اورصحیح مسلم میں ’’فامّٰکم منکم‘‘
جواب… صحیح بخاری کی حدیث ہے:’’کیف انتم اذانزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم‘‘{تم کیسے ہوگے جب تمہارے درمیان ابن مریم اتریں گے اورتمہارا امام تم میں سے ہوگا۔}دنیا میں صرف ایک ہی شخص ہوا ہے جس کی پیدائش بلاباپ ہوئی ہے اوروہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔لہٰذا اس سے کوئی دوسرا شخص مراد نہیں لیا جاسکتا۔جب تک کہ اس کے لئے قوی قرینہ صارفہ موجود نہ ہو۔یہاں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں۔پس اسرائیلی مسیح عیسیٰ علیہ السلام ہی نازل ہوں گے۔مسلمانوں کے درمیان نازل ہوںگے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے مسلمانوں