حاشیہ پر لکھتے ہیں:’’ایک دادی ہماری شریف خاندان سادات سے اوربنی فاطمہ میں سے تھی اوریہ حضرت فاطمہ نے کشفی حالت میںاپنی ران پر میرا سر رکھااورمجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں۔‘‘
چونکہ مرزاقادیانی بنی فاطمہ میں سے نہیں،سو مہدی بننے کے لئے مہدی کے بنی فاطمہ میں سے ہونے کاانکار کیا۔لیکن حدیث صحیحہ کی تردید کرنے کی بھی جرأت نہ ہوئی اوراپنا بنی فاطمہ میں سے ہوناثابت کرنے کے لئے مذکورہ بالا کشف بیان کیا اورسلسلہ مادری سے نسب کو معتبر رکھا۔ حالانکہ نسب سلسلہ پدری سے معتبر ہوتا ہے۔(ازالہ اوہام ص۱۴۷، خزائن ج۳ص۱۷۵)پر مرزاقادیانی لکھتے ہیں:’’آنحضرتﷺ پیشینگوئی فرماتے ہیں کہ مہدی خلق اورخلق میں میری مانند ہوگا۔میرے نام جیسااس کانام ہوگا۔میرے باپ کے نام کی طرح اس کے باپ کا نام۔‘‘
اگر ابن خلدون نے مہدی کی تمام حدیثوں پر جرح کی ہے اورمرزاقادیانی کو ان کی صحت کا انکار ہے تو یہ حدیث نقل کیو ں کی ہے۔حالانکہ اس کی رو سے مہدی موعود کا نام محمد بن عبداﷲ ہونا چاہئے اورمرزا قادیانی کا نام غلام احمد بن غلام مصطفی ہے جو ان کے دعویٰ مہدویت میں کاذب ہونے کی دلیل ہے۔
امام مہدی کے ظہور سے متعلق احادیث کو میں نے بلاسند متواتر قرار نہیں دیا۔ حافظ ابن حجرؒ ’’فتح الباری‘‘ میں لکھتے ہیں:’’تواتر الاخبار بان المھدی من ھذہ الامۃ وان عیسیٰ یصلے خلفہ‘‘یعنی احادیث رسول اﷲﷺ اس بارے میں تواتر کو پہنچ چکی ہے کہ مہدی اس امت میں سے ہوں گے اورعیسیٰ علیہ السلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔
ابن خلدون کا ظہور مہدی سے انکار صحیح نہیں۔کیونکہ معتبر علمائے حدیث نے مرفوعاً بعض احادیث کو نقل کیا ہے۔ جوظہور مہدی پر حجت قاطعہ ہیں۔ محمد بن اسنوی اپنی کتاب مناقب شافعی میں لکھتے ہیں:’’فقدتواتر الاخبار من رسول اﷲﷺ بذکرالمھدی وانہ من اھل بیتہ‘‘ یعنی حضور ﷺ سے بذریعہ تواتر ثابت ہوچکا ہے کہ مہدی ظاہر ہوں گے اوروہ خاندان نبوت میں سے ہوں گے۔شارح عقیدہ سفارینی نے امام مہدی کی تشریف آوری کے متعلق معنوی تواتر کا دعویٰ کیاہے۔ وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’امام مہدی کے خروج کی روایتیں اتنی کثرت سے موجود ہیں کہ اس کو معنوی تواتر کی حد تک کہا جا سکتا ہے اور یہ بات علمائے اہل سنت کے درمیان اس درجہ مشہور ہے کہ اہل سنت کے عقائد میں ایک عقیدے کی حیثیت سے شمار کی گئی ہے۔ابونعیم، ابوداؤد،ترمذی،نسائی وغیرہ ہم نے