صدمہ سے وہ بے ہوش ہو گئے۔‘‘
جواب… پچھلے صفحات میں تصریح گزر چکی یہ کہ آیات قرآنی مطھرک من الذین کفروا اور وکففت بنی اسرائیل عنک واضح طور عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب پرچڑھنے کی تردید کر رہی ہیں۔ قرآن نے یہودیوں کا قول نقل کیاہے کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کردیا۔اگر یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی غشی کی حالت کو موت سمجھا ہوتا۔تو ان کا عیسیٰ علیہ السلام کومقتول بیان کرنا خلاف واقعہ ہوتا۔اس صورت میں اﷲ تعالیٰ ان کے قول کو نقل نہ کرتا یا پھر وضاحت کردیتا کہ یہود کا عیسیٰ علیہ السلام کو مقتول قراردینا جھوٹ ہے۔بلکہ وہ غشی کی حالت میں صلیب پر سے اتا ر لئے گئے۔’’ماقتلوہ‘‘اور’’وماصلبوہ‘‘میں عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قتل اورصلب کی نفی کی گئی ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صلیب سے کوئی شخص قتل ضرور ہواہے۔لیکن وہ عیسیٰ علیہ السلام نہیںتھا۔یہ آپ نے خود تسلیم کیا ہے کہ صلیب پر لٹکانا صلب کی کارروائی میں پہلا کام ہے۔ ’’ماصلبوہ‘‘میں صلب کی کارروائی کی نفی کی گئی ہے۔کارروائی کی بحیثیت مجموعی نفی ہونے کی صورت میں اس کے ایک حصہ یعنی ابتداء کااثبات کیسے ہوگیا۔آپ کے قول کے مطابق جو صلیب پرچڑھ جائے اورصلیب پر مرے نہیں وہ مصلوب نہیں کہلاتا۔تو ازراہ کرم یہ بتادیں کہ ایسے شخص کے لئے عربی زبان میں کونسا لفظ موضوع ہے۔
قاموس عصری میں صلب کے معنی ’’علق علے الصلیب‘‘میں لکھتے ہیں ’’ما صلبوہ‘‘کے معنی ہوںگے’’ماعلقوہ علے الصلیب‘‘یعنی اسے صلیب پر نہیں لٹکایا ۔جو شخص غیراز مسیح صلیب پر قتل ہوا۔اس کاذکر سورئہ النساء کی آیت ’’ولکن شبہ لھم‘‘میںہے۔ یہ شخص عیسیٰ علیہ السلام کا ہم شکل بنایا گیاتھا۔تفسیر کشاف قران مجید کی فصاحت وبلاغت بیان کرنے میں مانی ہوئی ہے۔اس میں لکھا ہے ’’ولکن شبہ لھم من قتلوہ‘‘لیکن شبیہہ بنایا گیا واسطے ان کے جس کوقتل کیا انہوں نے۔
تفسیر رحمانی میں ہے :’’ولکن قتلوہ وصلبوہ من القی علیہ شبھہ‘‘ {لیکن انہوں نے اس کو قتل کیا اورصلیب دی جس پر مسیح کی شباہت ڈالی گی تھی۔}
سوال نمبر:۳۹… ص۵۲پر لکھتے ہیں:’’کپڑے کا کھونٹی پرلٹکانا تو کپڑے کی حفاظت کے لئے ہوتا ہے اور کسی کا صلیب پرلٹکایا جانا اس کی موت کے لئے۔ کیونکہ صلب موت کی سزا کی ایک قسم ہے۔ جب تک موت واقع نہ ہو۔صلب کی کارروائی پوری نہیں ہوسکتی۔آپ کی اس بحث میں شکست روز روشن کی طرح ظاہر ہے۔صلب کی کارروائی موت کے لئے لٹکانے کا مستلزم