کے قتل کاقصد کیا۔سوخدا نے آپ کوصاف نکال لیا اورآسمان کی طرف اٹھا لیا۔}یہاں ایک دقیق نکتہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
’’واذکففت بنی اسرائیل عنک‘‘{اورجب ہٹارکھا میں نے تجھ سے نبی اسرائیل کو }اوریہ نہیں فرمایا’’واذکففتک من بنی اسرائیل‘‘یعنی جب تجھ کوبنی اسرائیل سے جیسے کہ دوسرے مقام پر بنی اسرائیل کو اپنی نعمت یاد کرائی’’واذنجیناکم من آل فرعون یسومونکم سوء العذاب (۲:۴۹)‘‘{اورجب بچایا ہم نے تم کو آل فرعون سے پہنچاتے تھے تم کو بہت بڑاعذاب}اس صورت میں وہم پڑ سکتا ہے کہ یہود نے عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کر لیا ہوگا اورآپ کو کچھ اذیت بھی پہنچائی ہوگی۔مگرآخر اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ان کے ہاتھ سے بچا لیا ہوگا۔
قرآن نے نجات(بچانا) کی بجائے کف(ہٹارکھنا) استعمال کیا ہے۔قرآن نے یہ نہیں کہا کہ ’’کففتک عن بنی اسرائیل‘‘یعنی ہٹا رکھا تجھ کوبنی اسرائیل سے بلکہ یوں کہا کہ ’’کففت بنی اسرائیل عنک‘‘یعنی میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روکے رکھا۔کیونکہ یہود عیسیٰ علیہ السلام کوضرر پہنچانا چاہتے تھے لہٰذا ان کو ہی ہٹانے کاذکرکیا۔کف کا صلہ عن ذکر کیا۔ جو دوری کے لئے آتا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو عیسیٰ علیہ السلام سے دور ہٹائے رکھا۔پھر وہ کیسے انہیں کوئی اذیت پہنچا سکتے یا سولی پرچڑھا سکتے ہیں۔ ترتیب ذکری اس صورت میں قائم رہ سکتی ہے کہ ’’متوفیک‘‘کے معنی تجھے پورا پورا لے لوں گا،یا تیرا وقت پورا کرکے طبعی موت دوں گا،کئے جائیں۔’’رافعک‘‘کے معنی اپنی طرف اٹھالوں گا مراد ہوں اور ’’مطھرک من الذین کفروا‘‘کے معنے تجھے کافروں یعنی کفار کے ہاتھ سے بچالوں گا،کئے جائیں۔
سوال نمبر:۳۸… ص۴۹پر لکھتے ہیں : ’’ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب پرلٹکائے توگئے۔مگرصلیب پر ان کی موت واقع نہیں ہوئی ۔بلکہ ان کو صلیب سے اتاراگیاتووہ غشی کی حالت میں تھے۔جسے یہودیوں نے موت کی حالت سمجھ کر یہ دعویٰ کردیا کہ انہوں نے مسیح کو صلیب پرماردیا۔صلیب پرلٹکانا توصلب کی کارروائی میں پہلاکام ہے اورانتہاء اس کی موت کاواقع ہونا ہوتاہے۔جب تک موت کی حالت وقوع میں نہ آئے صلب کا فعل پورا نہیں ہوتا۔اسی لحاظ سے ہم کہتے ہیں کہ مسیح مصلوب نہیں ہوئے۔ کیونکہ صلیب پرلٹکایا جانے کے بعد ہماری تحقیق کے مطابق ان کی موت واقع نہیں ہوئی۔ لہٰذا صلیب کی کارروائی انجام تک نہیں پہنچی اورصلیب دینے کافعل پورا نہیں ہوا۔صرف ابتدائی کارروائی ضرور ہوئی ہے کہ انہیں صلیب کی لکڑی پر لٹکایاگیا اوراس کے