تفسیر سراج منیر میں نسائی اورمردویہ کی حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے: ’’فاجتمت الیہود علی قتلہ واخبرہ اﷲ بانہ یرفعہ الی السماء ویطھرہ من صحبۃ الیہود‘‘{جب یہود ومسیح کو قتل کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے۔اس وقت اﷲ تعالیٰ نے اسے خبردی کہ میں تجھے آسمان پر اٹھاؤں گا اورکفار یہود کی صحبت سے پاک رکھوں گا۔}
(آئینہ کمالات ص۴۶،خزائن ج۵ص ایضاً) پر مرزاقادیانی لکھتے ہیں:’’وعدہ کے الفاظ صاف دلالت کرتے ہیں کہ وعدہ جلد پورا ہونے والا ہے۔اس میں کچھ توقف نہیں۔‘‘
اس جگہ اگر توفی کے معنی موت اوررفع الی اﷲ سے وفات کے بعد درجے بلند ہونا مراد لیا جائے تو یہود نامسعود کی تدبیر کامیاب ٹھہرتی ہے اورنعوذباﷲ کفار سے تطہیر کاوعد ہ جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔پس واضح ہوگیا کہ توفی کے معنی یہی ہوسکتے ہیں:’’التوفی اخذاشیٔ وافیا‘‘ {یعنی توفی کے معنی ہیں کسی چیز کو پورالینے کے۔}
تفسیر معالم میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے :’’فبعث اﷲ جبرائیل فادخلہ فی خوخۃ فی سقفہا روزنۃ فرفعہ الی السماء من تلک الروزنۃ فالقی اﷲ شبہ عیسیٰ فقتلوہ وصلبوہ‘‘{جب یہود اہ اسکریوطی مکان کے اندرپہنچا تو خدا نے جبرائیل کوبھیج کرمسیح کوآسمان پراٹھالیا اوراسی بدبخت کو مسیح کی شکل پربنادیا۔پس یہود نے اسی کو قتل کیا اورصلیب پر چڑھایا۔}
اسی روایت کو (درمنثور)میں نسائی وابن مردویہ سے نقل کیاہے۔حافظ ابن کثیرؒ، امام سیوطیؒ اورامام ابن جریرؒ نے بھی اسے نقل کیا ہے۔ تطہیر سے مرادکفار کے ہاتھ سے صاف بچالینا ہے۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے مشرکین کو نجس اورپلید قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:’’انما المشرکون نجس(۹:۲۸)‘‘{یعنی مشرکین نجس ہیں۔}محدث ابن جریرؒ اپنی تفسیر جلد ۲ص۱۴۷پر ابن جریج رومیؒ سے نقل کرتے ہیں:’’عن ابن جریج قولہ انی متوفیک ورافعک الی ومطھرک من الذین کفرواقال فرفعہ ایاہ الیہ توفیہ ایاہ وتطھیرہ من الذین کفروا‘‘{ابن جریج نے قول الٰہی’’انی متوفیک‘‘کے بارے میں کہا کہ خداتعالیٰ کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھالینا ہی آپ کی توفی ہے اوریہی کفار سے تطہیر ہے۔}’’مطھرک من الذین کفروا‘‘کے معنی یہ ہوئے کہ کفار کے شر سے تجھے صاف بچا لوں گا۔
(ازالہ اوہام ص۳۸۰،خزائن ج۳ص۲۹۵)پر مرزا قادیانی لکھتے ہیں:’’پھر بعد اس کے مسیح ان (یہود)کے حوالہ کیاگیا۔تازیانے لگائے گئے۔گالیاں سننا طمانچہ کھانا، ہنسی اورٹھٹھے میں