قرآن مجید میں توفی کا لفظ ایک خاص مصلحت کے پیش نظر استعمال ہوا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام اپنی قوم میں موجود ہی تھے کہ ان کو توفی ہو گئی۔ اس توفی کے لئے قرینہ آیات قرآنی ’’انی متوفیک ورافعک الی‘‘میں ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘میں موجود ہے۔واقعہ صلیب سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام آسمان پراٹھائے گئے۔
صحیح بخاری میں جو کہ ’’اصح الکتب‘‘بعد کتاب اﷲ ہے۔حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے:’’والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم فیکسر الصلیب ویقتل الخنز یرویضح الجزیۃ‘‘ {اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ایک وقت ضرور آنے والاہے جب تمہارے درمیان ابن مریم نازل ہوںگے۔پس صلیب کو توڑیںگے۔سور کو قتل کریں گے اورجزیہ موقوف کر دیں گے۔}
اس حدیث میں قرب قیامت کے زمانے میں عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول بیان ہواہے۔اس کی تائید میں حضرت ابوہریرہؓ نے سورئہ النساء کی مندرجہ ذیل آیت پیش کی:’’وان من اھل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘{اور اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہیں ہوگا جو عیسیٰ کی موت سے پہلے ایمان نہیں لے آئے گا۔}’’لیومنن‘‘میں لام تاکیدی اور نون ثقیلہ مضارع میں خصوصیت کے ساتھ مستقبل کے معنی پیدا کردیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نزول قرآن کے بعد کسی زمانے میں تمام اہل کتاب عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔ یہ آیت عیسیٰ کے آسمان پر زندہ ہونے کے بارے میں نص ہے اورصحیح احادیث میں صراحت ہے کہ نزول کے بعد عیسیٰ علیہ السلام شادی کریںگے۔ان کی اولاد ہوگی۔ ۴۵؍ سال دنیا میں رہیںگے۔اس کے بعد وفات پاجائیںگے اورمسلمان ان کاجنازہ پڑھیں گے اور نبی کریمﷺ کے مقبرے میں دفن ہوںگے۔
عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پراٹھائے جانے کاذکر ’’فلما توفیتنی‘‘میں ہے۔اﷲ تعالیٰ نے ’’مادمت فیھم فلما توفیتنی‘‘کے الفاظ کے اندرعیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے چار مراحل موتیوں کی طرف سمو دیئے ہیں۔ رفع آسمانی سے پہلے ۳۳؍برس کی دنیاوی زندگی ’’دمت فیھم‘‘میں آگئی۔اس کے بعد رفع الی اﷲ توفیتنی میں آگیا۔نزول کے بعد دنیامیں۴۵ برس کا قیام بھی ’’دمت فیھم‘‘میں آگیا اوراس کے بعد ’’قبل موتہ‘‘میں مذکور طبعی موت فلما توفیتنی میں آگئی۔کیونکہ توفی کے معنی وفات آتے ہیں۔