یہودیوں کے لئے ہدایت کا سامان نہیں رکھتابلکہ گمراہی کا موجب ہے اوربے گناہ کو خدا کا صلیب پرچڑھاکرمروادینا ظلم عظیم ہے۔جو خدا تعالیٰ کی شان کے منافی ہے۔’’ان اﷲ لا یظلم مثقال ذرۃ (۴:۴۰)‘‘جب خدا کسی پر ذرہ بھر ظلم نہیں کرتا تو تو کسی دوسرے شخص کو بلا جرم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل دے کر مروادینا تو صرف ظلم ہی نہیںبلکہ دھوکہ دہی بھی ہے۔ ’’تعالیٰ شانہ عن مثل ھذہ الھفوات‘‘
جواب… گزشتہ صفحات میں ثابت کیاجاچکا ہے کہ ’’توفیتنی‘‘کے معنی ’’رفعتنی الی السمائ‘‘ہیں۔لاغیر یہ بھی ثابت کیاجا چکا ہے کہ ’’کنت انت الرقیب علیھم‘‘ کے الفاظ ان کی دوسری بار دنیا میں واپسی کے خلاف نہیں۔ یہ انہوں نے کہیں بیان نہیں دیا کہ وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آئے ہوں گے۔ان کے دوبارہ دنیا میں آنے سے ان کا یہ بیان جھوٹا ثابت نہیں ہوتا کہ میری توفی کے بعد تو ہی ان کانگران رہا ہے۔اس کامطلب تو یہ ہے کہ قوم میں ان کی عدم موجودگی کے وقت قوم اﷲ تعالیٰ کی نگرانی میں رہی ہے۔باقی آپ کا یہ کہنا کہ عیسیٰ نے یہ کیوں نہ کہا کہ دوبارہ دنیا میں گیاتھااورمیں نے سب صلیب کے پوجنے والوں کو مسلمان بنادیاتھا۔تویہ تو سوال چنا جواب گندم والی بات ہوئی۔اﷲ تعالیٰ کا عیسیٰ علیہ السلام سے قیامت کے دن یہ سوال ہوگا’’اے عیسیٰ کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اورمیری ماں کو اﷲ کے سوادو خدا بنالو۔‘‘عیسیٰ علیہ السلام جواب دیں گے ،تیرے لئے پاکی ہے۔میرے شایان شان نہیں کہ میں ایسی بات کہوں جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں۔اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو تجھے ضرور اس کا علم ہوتا۔ تو جانتا ہے کہ میرے جی میں کیا ہے اورمیں نہیں جانتا کہ تیرے نفس میں کیا ہے اور تو غیب کی باتوں کو خوب جاننے والاہے۔میں نے تو ان سے وہی بات کہی تھی۔جس کا تو نے حکم دیاتھا کہ اﷲ کی عبادت کرو جو میرا رب ہے اورتمہارا بھی اور میں ان پرگواہ تھا۔جب تک ان کے درمیان موجود رہا۔پس جب تو نے میری توفی کرلی تو تو ہی ان پرنگران تھا اور تو ہر چیز پرنگہبان ہے۔(المائدہ ع۱۶)
سوال تو ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہوں نے عیسیٰ علیہ السلام اوران کی والدہ کو اﷲ کے سوا معبود بنایا اورعیسیٰ علیہ السلام نے ان کا مناسب جواب دیا ہے کہ میں نے توصرف اﷲ کی عبادت کی تعلیم دی تھی۔اگر یہ سوال ہوتا کہ کیا آپ نے دوبارہ دنیا میں جانے کے بعد صلیب کے پجاریوں کو مسلمان بنادیاتھا۔تو وہ آپ کا تجویز کردہ جواب دیتے۔ان کے بیان میں مذکور توفی والی توفی ہے۔اس کا دامن قیامت تک ممتد نہیں ہے۔بلکہ موت تک ہے۔