کے آسمان پر اٹھائے جانے کے خلاف ہے۔
جواب… کیاآپ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی رسول قتل ہو جائے تو وہ رسول ثابت نہیں ہوتا۔ قرآن مجید میں یہودیوں کے انبیاء کو قتل کرنے کاذکر ہے۔ یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے تو نعوذباﷲ قتل ہونے والے انبیائ، کیا انبیاء نہیں رہیںگے؟اس لئے آپ کی یہ تفسیر قابل قبول نہیں۔ رفع الی اﷲ کے معنی رسول ہونا کس لغت میں لکھے ہیں؟
سوال نمبر:۳۵… ص۴۳پرلکھتے ہیں:’’آپ کا ریاضی کا قاعدہ اس حدیث پر لاگو نہیں ہوسکتا۔یہ تب لاگو ہو سکتا ہے اگر حدیث ہذا میں یہ الفاظ ہوتے کہ ہر پہلے نبی کی عمر بعدآنے والے سے دگنی ہوئی ہے۔اس کے برخلاف آپ نے الفاظ حدیث کا ترجمہ خود یہ نقل کیاہے کہ کوئی نبی نہیں گزرا جس کی عمر پہلے نبی سے آدھی نہ ہوئی ہو۔
جواب… ان الفاظ سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعد میں آنے والے نبی نے پہلے نبی سے نصف عمر ضرور پائی ہے۔اس سے کم نہیں۔ان الفاظ کا ہرگز یہ مفاد نہیں کہ پہلے نبی نے بعد والے نبی سے دوگنی عمر پائی ہے۔پس ہر بعد والا نبی پہلے نبی سے اس حدیث کے مطابق نصف عمر ضرور پاتا رہا ہے۔ نصف عمر ضرور پائی۔پس حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر اگر ۷۵سال تھی تو حضرت اسحٰق علیہ السلام نے ان سے نصف عمر ضرور پائی۔خواہ ان کی عمر بھی ابراہیم علیہ السلام کے مساوی یا اس سے کم وبیش ہو۔لیکن انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر سے نصف سے کم عمر ہرگز نہیں پائی۔ یہی صورت عمر دوسرے انبیاء کی ہے جو اسحاق علیہ السلام کے بعد ہوئے۔ پس اس حدیث سے پہلے نبی کے لئے بعد والے نبی سے دوگنی عمرپانے کا غیر معقول استدلال درست نہیں۔پس آپ کا ریاضی کا حساب مردود ہے۔‘‘
حدیث کا ترجمہ میں نے نہیں کیا۔مرزا بشیر الدین محمود نے کیا ہے اور یہ ترجمہ غلط ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:’’لم یکن نبی الا عاش نصف الذی قبلہ‘‘{ہر نبی نے اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر پائی ہے۔}اس کا ترجمہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ’’کوئی نبی نہیں گزرا جس کی عمر پہلے نبی سے آدھی نہ ہوئی ہو۔‘‘اگر یہ مراد ہوتی تو ’’الاعاش نصف اواکثر من نصف الذی قبلہ‘‘ ہوتا۔خواہ یوں کہیں کہ بعد والے کی عمر پہلے سے نصف ہوتی ہے یایوں کہیں کہ پہلے کی عمر بعد والے سے دگنی ہوئی ہے۔ایک ہی بات ہے اس لئے میرا استدلال درست ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ یحییٰ علیہ السلام اورزکریا علیہ السلام نبی ہیں۔ لیکن میں نے عمداً بعض ہم عصر انبیاء کے نام نہیں لئے تھے۔کیونکہ ان کا نام لئے بغیر بھی مقصد مل جاتا ہے۔اس حدیث کا ضعیف ہونا تو اس