کی طرف ہجرت کی اور ۸۷برس وہاں گزار کر طبعی وفات پائی اوروہیں مدفون ہوئے۔آیت ’’کنت علیھم شھید امادمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم‘‘کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کی توفی اس وقت ہوئی جب کہ وہ اپنی قوم ے اندر موجود ہونے کی وجہ سے اس پرگواہ تھے اگرآپ کی بات مان لیں تو چونکہ فلسطین سے چلے گئے اور وفات کے وقت کشمیر میں تھے۔ لہٰذا فلسطین میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے قوم پر گواہ نہیں ہو سکتے۔ آپ کا عقیدہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی قوم ان کی توفی کے بعدبگڑی ہے اورثبوت میں یہی آیت پیش کیا کرتے ہیں۔یعنی ’’وکنت علیھم شھیدامادمت فیھم‘‘یعنی میں ان پرگواہ تھا ،جب تک ان کے درمیان موجود رہا۔آپ کی یہ بات صرف اسی صورت میں صحیح ہو سکتی ہے کہ توفی کے وقت عیسیٰ علیہ السلام اہل فلسطین میںموجود ہوں۔جیسے کہ آیت میں تصریح ہے۔پس عیسیٰ علیہ السلام کا کشمیر کی طرف ہجرت کرنا اوروہاں ۸۷برس قیام کے بعد وفات پاکر مدفون ہوناباطل ٹھہرا۔
سوال نمبر:۳۲… ص۴۱پر لکھتے ہیں:’’حدیث نبوی ان عیسیٰ اتی علیہ الفناء کے مطابق آپ وفات پاچکے ہیں۔‘‘
جواب… یہ حدیث ربیع سے مرسلا بیان ہوئی ہے اور درمنثور جلد دوم ص۳پر ہے۔ اس میں آخری الفاظ یہ ہیں:’’قال الستم تعلون ان ربنا حیی لایموت وان عیسیٰ یاتی علیہ الفناء قالو ابلی‘‘{نبی کریمﷺ نے (نصاریٰ کے وفد نجران) سے فرمایا کیا تم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات ہمیشہ زندہ رہنے والی ہے۔اس کو موت کبھی نہ آئے گی اورعیسیٰ علیہ السلام کو موت آنی ہے۔انہوں نے اس کااقرار کیا اورکہابیشک ان کو موت تو آنی ہے۔ یہاں ’’اتی علیہ الفنا‘‘نہیں ہے۔یاتی علیہ النفا یعنی عیسیٰ پرفنا آئے گی،آچکی نہیں۔
سوال نمبر:۳۳… ص۴۱پر لکھتے ہیں:’’پس اگر آپ کو اتحاد آنی پر ہی اصرار ہے توان کی ہجرت الی الارض مان لیں‘‘ اس تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتحاد زمانی کے عقیدے میں آپ متزلزل ہیں۔ ورنہ بالجزم اس پر قائم رہتے۔
جواب… سوال تو رفع الی اﷲ کا ہے اور ہم مان لیں ہجرت الی الارض کشمیر کی طرف ہجرت کے افسانے کا تیاپانچہ کیاجاچکاہے۔
سوال نمبر:۳۴… ص۴۱پر ہی لکھتے ہیں:’’آپ کو علامہ یوسف علی کا ترجمہ پیش کیا گیا تھا۔ وہی مان لیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا عدم قتل ان کے رفع الی اﷲ یعنی رسول ہونے کا ثبوت ہے۔ آخر ان معنوں سے آپ کو کیوں انکار ہے؟اسی لئے تو انکار ہے کہ یہ تفسیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام