ہیں اورص۳۰ پر باعزت وفات کے بعد بلند مدارج پانا،آپ اس سے تو انکار نہیں کر سکتے کہ آیت ’’ماقتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘واقعہ صلیب کے متعلق ہے۔کیونکہ قرآن میں اورکہیں واقعہ صلیب کاذکرنہیں۔
آپ جو کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کوصلیب پر چڑھایاگیاتھا۔لیکن مرے نہیں اور ’’ماقتلوہ یقینا‘‘سے یہی ثابت ہے کہ صلیب پر قتل نہیں ہوئے۔آپ کو اپنے عقیدے کی بنیاد پر معنے یوں ہی کرنے پڑیں گے۔
یہودیوں نے یقینا عیسیٰ علیہ السلام کوقتل نہیں کیا۔بلکہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں باعزت وفات دے دی۔اب اپنے ہی معنوں میں آپ کو انکار ہے۔اس لئے کہیں تو اسکے معنی لکھتے ہیں ’’توفی ولارفع (ص۱۸)‘‘کہیں طبعی وفات پائی اوراس کے ساتھ ہی بلند ہوگئے (ص۲۲) کہیں مرفوع الی اﷲ والی وفات(ص۲۵)کہیںوفات کے بعد اپنی طرف رفع (ص۲۶) اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کا رفع ہوگیا۔جو طبعی موت کے بعد ہوا۔(ص۳۹)کوئی وجہ تو ہے جو آپ کو تلبیس سے کام لینا پڑتاہے۔یہ تو ظاہر ہے کہ بل ابطالیہ ہونے کی وجہ سے قتل کی نفی اور ساتھ ہی رفع کااثبات ہوناچاہئے۔اگر صلیب پر عزت کی موت نہیں مانتے۔تو یہ مان لیں کہ صلیب پر سے غشی کی حالت میں اتارے گئے۔ لیکن زندہ تھے۔اسی وقت اﷲ نے انہیں طبعی موت دے دی۔یہاں اتحاد زمانی نہیں ہوسکتا۔گزشتہ اوراق میں آپ کی پیش کردہ اتحاد زمانی والی آیت کی بھی تردید ہوچکی ہے اورکشمیر کی طرف ہجرت کرنے کے خود تراشیدہ افسانے کی بھی۔
سوال نمبر:۳۰… ص۴۰پر لکھتے ہیں :’’متوفیک‘‘کا لفظ طبعی عمر پاکر وفات پانے کو چاہتا ہے اور ’’رافعک الیّٰ‘‘کا ذکر اس کے بعد ہے۔لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع الی اﷲ وفات طبعی کے بعد ہوا۔‘‘
جواب… آپ نے ص۳۰پر رفع کے معنے باعزت وفات کے بعد بلند مدارج پانا لکھے ہیں۔ یہاں رفع الی اﷲ کی بجائے یوں کیوں نہیں کہتے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باعزت وفات کے بعد مدارج پانا طبعی وفات کے بعد ہوا۔ کیا یہ معنی یہاں صحیح بیٹھتے ہیں؟
سوال نمبر:۳۱… ص۴۱پر لکھتے ہیں’’اے عیسیٰ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاؤ۔ (فلسطین سے چلا جا)تاکہ تو پہچانا نہ جائے اور دکھ نہ دیاجائے۔‘‘
جواب… اس سے صاف ظاہر ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد آپ نے ہجرت فرمائی اوباقی عمر کسی اورجگہ بسر کی۔آپ تسلیم کررہے ہیں کہ واقعہ صلیب کے بعد عیسیٰ علیہ السلام نے کشمیر