کی توفی کو رفع آسمانی سے کیوں تعبیر کریں۔تو اس کاجواب یہ ہے کہ توفی جنس ہے اورموت، نیند ، رفع وغیرہ اس کی انواع ہیں۔ ہمیں نوع کا تعین کرنے کے لئے قرآن اورخصوصی حالات پر نظر کرنی پڑتی ہے۔’ ’ریب ‘‘کے معنی ہر جگہ شک کے ہیں۔لیکن سورئہ الطور میں ریب المنون سے حوادث زمانہ مراد ہے۔ اسی طرح ’ ’بروج‘‘سے مراد ہر جگہ ستارے ہیں۔ لیکن سورئہ نساء میں بروج مشّیدۃ سے اونچے اونچے محل مراد ہیں۔
اسی طرح گو ایک لفظ توفی دونوں پیغمبروں کے لئے استعمال ہوا ہے۔لیکن ہر دو کے خصوصی حالات سے جو خارجی دلائل سے ثابت ہیں۔نظر کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ عیسیٰ کی توفی رفع آسمانی سے ہوئی اورآنحضرتﷺ کی توفی موت سے۔ عیسیٰ علیہ السلام کی توفی بموجب آیات ’ ’انی متوفیک ورافعک الیّٰ ‘‘ اور’ ’بل رفعہ اﷲ الیہ (۴:۱۵۹)‘‘آسمانوں کی طرف اٹھائے جانے کے بعد ہوئی اور رسول اﷲ کی توفی موت سے ہونے کی دلیل حدیث سے ثابت ہے۔ جو صحیح بخاری کے باب وفات النبیﷺ میں ہے۔پس آیت ’ ’فلما توفیتنی‘‘ سے عیسیٰ علیہ السلام کی موت ثابت نہیں ہوئی۔بلکہ اس کے خلاف رفع آسمانی ثابت ہوا۔
سوال نمبر:۲۷… ص۳۵ پر لکھتے ہیں :’’آپ نے اسلامی تاریخ کے خلاف یہ لکھ دیا کہ آنحضرت ﷺ کے مدینہ تشریف لے جانے پر مکہ والوں پر عذاب نہیں آیاتھا۔‘‘جناب میاں صاحب! یہ بات آپ نے غلطی سے لکھی ہے۔کیونکہ آنحضرت ﷺ کے مدینہ تشریف لے جانے پر آیت ’ ’ماکان اﷲ لیعذبھم وانت فیھم‘‘کے مطابق مکہ سے مدینہ ہجرت فرماجانے پرمکہ والوں پر ضرور عذاب آیاتھا۔کیاجنگ بدر میں سترکفار کا معہ ان کے سردار ابوجہل کے ماراجانا عذاب نہیںتھا؟جس سے مکہ والوں کو شکست فاش ہوئی؟اگر مسلمانوں کے ہاتھوں کافروں کاجنگ میں مارا جانا عذاب نہیں ہوتا تو خداتعالیٰ نے قرآن میں کیوں فرمایا ہے:’ ’قاتلوھم یعذبھم اﷲ بایدیکم (توبہ:۱۴)‘‘{کہ مسلمانو!ان حملہ آور کافروں سے جنگ کرو۔خدا تعالیٰ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب دے گا۔پس آپ مکہ والوں میں یقینا اس وقت موجود نہ تھے۔جب بد ر کے میدان میں مکہ والوں کے ستر سپاہی مارے گئے۔‘‘
آپ کی منقولہ آیت میں اﷲ کامسلمانوں کے ہاتھوں سے کفار کوعذاب دینا مذکور ہے اورآیت ’ ’ماکان اﷲ لیعذبھم …الخ‘‘میں اﷲ تعالیٰ کا نازل کردہ عذاب بیان ہواہے۔ میں نے یہ صحیح لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے مدینہ منورہ تشریف لے جانے پر مکہ والوں پر عذاب نہیں آیاتھا۔البتہ آپ تاریخ کے خلاف لکھ رہے ہیں کہ آنحضرت ﷺ مکہ والوں میں یقینا اس