ہیں} اس پر مفصل بحث گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔یہاں اتنا کہہ دیناکافی ہے کہ کنائی (فرضی) معنے لینے کا جواز تب ہے جب حقیقی معنے لینا ممنوع ہو۔ جب حقیقی معنی مضر نہیں تو ہم کیوں کہیں کہ ’ ’مادمت فیھم‘‘کے الفاظ ان کی زندگی کے لئے کنایہ ہیں۔ یہ الفاظ صرف ’’مشھود علیھم‘‘ کے درمیان ہی عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی نہیں چاہتے تھے۔بلکہ ان کے درمیان موجود نہ ہونے کی صورت میں ان پرگواہ تو نہیں ہوںگے۔لیکن اس میں موجود نہ ہوتے زندہ تو رہ سکتے ہیں۔جیسے کہ ہمارا اعتقاد ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام دوسرے آسمانوںپرزندہ ہیں اورقرب قیامت کے زمانے میں آسمان سے نازل ہوںگے۔
سوال نمبر:۲۶… ص۲۱ پر آپ نے صحیح بخاری کی پوری حدیث نہیںلکھی۔پوری حدیث یوں ہے:’ ’یوخذ برجال من اصحابی ذات الیمن وذات الشمال فاقول اصیحابی فیقال انھم لم یزالو امر تدین علی اعقابہم منذ فارقتھم فاقول کما قال العبد الصالح عیسیٰ ابن مریم وکنت علیھم شھید اما دمت فیھم فلما توفینی کنت انت الرقیب علیہم‘‘{میر ی امت کے کچھ لوگوں کو دائیں بائیں سے پکڑا جائے گا تو میں کہوں گا یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔تو مجھے کہاجائے گا کہ نہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ جب تو ان سے جدا ہوا ۔یہ دین سے برگشتہ ہوکرمرتدہی رہے تو میں کہوںگا کہ جس طرح کہاہوگا عبدصالح عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم نے کہ الٰہی میں تو شاہد ان پر اس وقت تک رہا جب تک میں ان کے بیچ رہا ۔ جب تو نے مجھے بھر لیا توصرف تو ہی ان پرنگہبان تھا۔}
جواب… فاقول کما قال کہنے سے یہ ضروری نہیں کہ کما سے پہلے اوربعد میں بیان کردہ واقعات ہر لحاظ سے ایک ہی ہوں۔ سورئہ انبیاء میں ہے:’ ’کما بدأنا اول خلق نعیدہ (۲۱:۱۰۴)‘‘ {جس طرح ہم نے مخلوقات کو پہلی بار پیدا کیا تھا،اسی طرح دوبارہ پیدا کر کے چھوڑیںگے۔} ظاہر ہے کہ پہلی پیدائش ماں کے پیٹ سے باپ کے نطفے سے ہوتی ہے اورقیامت کے روز اس طرح پر نہیں ہوگی۔صرف یہ ظاہر کرنامقصود ہے کہ اﷲ جس طرح پہلی دفعہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔موت کے بعد بھی پیداکردینااس کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔اسی طرح ’ ’فاقول کماقال العبد الصالح‘‘میں کما اس بات کے اظہارکے لئے ہے کہ جس طرح عیسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے شرک سے بری الذمہ ہیں۔اسی طرح آنحضرتﷺ اپنی امت کے مرتدین کے ارتداد سے برأت کااظہارکریںگے۔
باقی رہا یہ سوال کہ جب آنحضرتﷺ کی توفی موت سے ہوئی ہے تو عیسیٰ علیہ السلام