جاسکتا۔ کیونکہ اس سے خدا کامحدود المکان ہونالازم آتاہے اورذوالجہۃ ہونا بلکہ مجسم ہونا بھی لازم آتا ہے۔ پس مسیح کے خدا کی طرف رفع جسمی کاخیال باطل ہے کہ رفع سے شان اوربلندی درجات ہی مراد لی جاسکتی ہے۔’ ’لاغیر فتدبر‘‘قرآن مجید کی آیت ہے:
جواب… ’ ’ونادینا ہ من جانب الطورالایمن وقربنا نجیا (۱۹:۵۲)‘‘ {اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور کی داہنی طرف سے آواز دی اورسرگوشیوں کے لئے اپنے سے قریب کیا۔}آواز اﷲ تعالیٰ نے دی۔اس آیت سے اﷲ تعالیٰ کا کوہ طور کی داہنی طرف سے محدود المکان ہونا ظاہرہوتاہے اوراس خیال کو بعد کے الفاظ ’ ’ قربناہ نجیا‘‘سے مزید تقویت ملتی ہے۔ آپ کے قول کے مطابق خدا اورموسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی فاصلہ قرار نہیں دیاجاسکتا تو خدا نے موسیٰ علیہ السلام کو جو مجسم اورمحدودالمکان ہیں۔اپنے قریب کیوں کیا؟ قریب جانے والا جس کے قریب جارہاہے اس کی طرف فاصلہ طے کرے گااوراس کو بھی مجسم اور محدود المکان تسلیم کرنا پڑے گا۔لیکن درحقیقت اﷲ تعالیٰ نہ مجسم ہے نہ محدود المکان۔اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کا خدا کی طرف رفع ہوجانے کی وجہ سے خدا کا محدودالمکان ہونا لازم نہیں آتا۔ مفصل بحث گزشتہ صفحات پر گزر چکی ہے۔جہاں رفع مادی جسم ہو۔جیسے آیت بل رفعہ میں عیسیٰ (جسد معہ روح) کا ہے تو وہاں اس جسم کو اوپراٹھانا ہی مراد ہوسکتی ہے۔شان اوربلندی مراد نہیں لی جاسکتی۔ مثلاً :
’ ’ورفعنا فوقکم الطور (۲:۹۳)‘‘{ہم نے تمہارے اوپر طورپہاڑ کااٹھایا۔} ’ ’اﷲ الذی رفع السموات بغیر عمد ترونھا (۱۳:۲)‘‘{یعنی اﷲ ہی ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا اورتم دیکھ رہے ہو کہ کوئی ستون انہیں تھامے ہوئے نہیں ہے۔}جہاں رفع درجات مقصود ہو تو درجات کا لفظ رفع کے ساتھ موجود ہوتاہے۔مثلاً ’ ’ورفع بعضھم درجات (۲:۲۵۳)‘‘ {یعنی ان میں سے بعض کے درجے بلندکئے۔}’’وھوالذی جعلکم خلائف الارض ورفع بعضکم فوق بعض (۲:۱۶۵)‘‘ {اوروہی تو(خدا) ہے،جس نے زمین میں تمہیں اپنانائب بنایا اور تم میں سے بعض کے بعض پردرجے بلند کئے۔}
سوال نمبر:۲۵… ص۳۱پر لکھتے ہیں:’ ’مادمت فیھم ‘‘اور’ ’مادمت حیا‘‘یہ زندگی کے بیان کرنے کے ہی دواسلوب ہیں۔
جواب… ان کے اس جواب سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک ’ ’مادمت فیھم‘‘ کے الفاظ مشھود علیھم میں ان کے زندہ ہونے کو چاہتے ہیں۔پس یہ الفاظ زندگی کے لئے کنایہ