آیت میں بھی ایسا ہی ہو۔لیکن آپ کی منقولہ آیات میں تواتحاد زمانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بل کا عطف تو مندرجہ ذیل دوفقروں پرہے۔
۱… ’ ’لواردنا ان نتخذا لھوالالتخذناہ من لدنا ان کنا فاعلیں‘‘{اگر ہم چاہتے،کہ کھیل تماشا بنالیں تو اپنے پاس سے بنالیتے۔مگر ہمایسا کرنے والے نہ تھے۔}
۲… ’ ’نقذف بالحق علی الباطل فیدمفہ فاذا ھو زاحق‘‘{ہم حق سے باطل پر چوٹ لگاتے ہیں۔تو وہ باطل کا سر کچل ڈالتا ہے اوراچانک اسے فناکردیتاہے۔}
’ ’وما خلقنا السمآء والارض ومابینھما لاعبین‘‘پر بل کا عطف ہے ہی نہیں۔آپ اسے منفی مضمون کا جملہ بتارہے ہیں۔درحقیقت ’ ’لوار دنا ان نتخذ لھوا لالتخذناہ من لدنا انا کنا فاعلین‘‘کے جملہ کامضمون منفی ہے۔کیونکہ ’ ’ان کنا فاعلین‘‘ میں ان قافیہ ہے۔آپ اس کاذکر ہی نہیں کرتے۔اسی پر بل کا عطف بھی ہے۔ آپ خود ہی لکھ رہے ہیں:
’’ان دونوں جملوں میں بل کے ذریعہ عطف پر پہلی آیت کے جملے کاحکم بھی قائم ہے اور دوسری آیت کے جملہ کا حکم بھی جو بل کے بعد آیاہے قائم ہے۔اس طرح دونوں جملے متکلم کا مقصود ہیں اوردوسرا جملہ پہلے کی تشریح کررہا ہے اورایک اثباتی مقصد کا اس تشریح پر اضافہ بھی کررہا ہے۔جس کا بیان کرناخداتعالیٰ کے نزدیک بل کے بعدزیادہ اہمیت رکھتاہے۔
ان جملوں سے مراد جملہ نمبر۱ اورجملہ نمبر۲ ہیں۔بتائیے ان میں اتحاد زمانی کہاں ہے؟
واقعہ میں حق کی چوٹ لگاکر باطل کو فنا کردینا پہلے متحقق ہوا۔پیچھے کھیل تماشا بنانے کا ارادہ نہ ہونے کاذکرکیا۔اسی طرح آیت ’ ’ماقتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘میں بھی پہلے مذکورہ واقعہ صلیبی پیچھے ہوا۔اس سے پہلے اﷲ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کوآسمان پراٹھالیا۔
آپ خواہ مخواہ تعلیّ …کررہے ہیں کہ آپ کی پیش کردہ آیات نے آیت’ ’ماقتلوہ یقینا…الخ‘‘کے اردگرد بناہواتانا بانا تار عنکبوت سے کمزورثابت کردیا ہے۔آپ اپنی تلبیس سے دنیا کودھوکہ تو نہیں دے سکتے۔
سوال نمبر:۲۴… ص۳۰پر لکھتے ہیں ’’خدا اوربندے کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں کیاجاسکتا۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتاہے :’ ’نحن اقرب الیہ من حبل الورید‘‘کہ ہم انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں اوررفع جسمی دوری کوچاہتا ہے اورخدا مسیح سے دور نہ تھا۔پس جب خدا اورمسیح کے درمیان کوئی فاصلہ قرار نہیںدیاجاسکتا تو مسیح کے جسم کا رفع خدا کی طرف تجویز نہیں کیا