کاباطل سے اس طرح مقابلہ کروادیتے ہیں کہ حق باطل کا کچومر نکال دیتاہے اورباطل حق کے مقابلے میں بھاگ جاتاہے۔
جناب من دیکھ لیجئے! ان آیات میں ’ ’وماخلقنا السمآء والارض وما بینھما لاعبین‘‘کے جملہ کا مضمون منفی ہے اور’ ’بل نقذف بالحق علی الباطل فیدمغہ فاذا ھو زاحق‘‘کامضمون مثبت ہے۔ان دونوں جملوں میں بل کے ذریعے عطف پر پہلی آیت کے جملے کاحکم بھی قائم ہے اوردوسری آیت کے جملہ کا حکم بھی جو بل کے بعد آیاہے،قائم ہے۔اس طرح دونوں جملے متکلم کامقصود ہیں اوردوسرا جملہ پہلے کی تشریح کررہاہے اورایک اثباتی مقصد کا اس تشریح پراضافہ بھی کررہاہے۔جس کا بیان کرنا خداتعالیٰ کے نزدیک بل کے بعد زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔دیکھئے اس جگہ بل سے پہلے منفی جملہ اوربل کے بعد اثباتی جملے کے اوقات میں اتحاد آنی موجود نہیں۔بلکہ ہزارہا سال کافرق ہے۔کیونکہ حق کا باطل پر اٹھامارنا خدا کی طرف سے آسمانوں اورزمین اوران کے درمیان اشیاء پیدا ہونے سے ہزارہا سال بعد میں شروع ہوا جب کہ خدا نے انبیاء کے بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔
پس جناب من! اتحادآنی کے متعلق آپ کے قاعدہ کا کلیہ ہونا باطل ہوا کہ بل سے پہلے ایک واقعہ کی نفی اوراسی وقت ایک واقعہ کااثبات بھی ہے اوردونوں واقعات کے وقوع کا وقت ایک نہیں بلکہ ان میں لمبا فاصلہ موجود ہے۔پس جب بل پر مشتمل مضمون کے دو جملوں میں دونوں فعلوں کے وقوع میں ہزارہا سال کا فاصلہ ہوسکتا ہے توآیت’ ’ماقتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیبی موت سے بچایا جانے کے فعل اوران کے وفات پا کرمرفوع الی اﷲ کے دخل میں اگر ۸۷برس کاعرصہ پایا گیا تو یہ امرکیوں کر قابل اعتراض ہوسکتا ہے؟اصل حقیقت تو یہ ہے کہ ان ۸۷سالو ں میں عدم قتل کا فعل چلتارہا ہے اورآپ کی وفات اور رفع الی اﷲ تک اس کا دامن وسیع ہے۔اس لحاظ سے دونوں فعلوں عدم قتل اوررفع الی اﷲ والی توفی جو ۸۷سال بعد ہوئی۔باہم اتحاد زمانی رکھتے ہیں۔جیسے خدا کے آسمانوں وزمین اور’ ’ومابینھما‘‘کے پیدا کرنے کے بعد اس کا کھیل کے طور پر پیدا نہ کئے جانے کا زمانہ انبیاء کے ظہور تک ممتد ہے اوران دونوں فعلوں میں اتحاد زمانی موجود ہے،نہ کہ اتحادآنی۔
جواب… آپ نے ص۲۲پر جوپہلی آیت قرآنی’ ’نتخذ لھوا‘‘ لکھا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ اپنی مطلب براری اوردھوکہ دہی کی خاطر آپ نے ایسا کیاہے۔اول تو یہ ضروری نہیں کہ اگر ایک آیت میں بل سے ماقبل اورمابعد کے واقعات میں اتحاد زمانی پایاجاتا ہے تو دوسری