پرچڑھانا تو کجا یہودی عیسیٰ علیہ السلام کے قریب بھی نہیں پھٹک سکے۔ قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اپنے من جملہ احسانات میں سے یہ احسان بھی گنوائے گا ۔سو اس آیت میں کوئی تاویل نہیں ہوسکتی۔ چونکہ صلیب پر نہیں لٹکائے گئے اورنہ قتل ہوئے۔سو انہیں زندہ جسم مع روح آسمان پراٹھالیاگیا۔
سوال نمبر:۲۲… ص۲۶پر جو آپ لکھتے ہیں:’’آپ کی وفات حسب وعدہ انی متوفیک ہوئی اور حسن وعدہ ’ ’رافعک الیّٰ‘‘خدا نے ان کو ان کی وفات کے بعد اپنی طرف رفع کرلیا۔‘‘
جواب… یہاں اپنی طرف رفع کرلیاکیوں لکھتے ہیں۔ص۲۵ والے معنی ’’خد ا نے مسیح کو مرفوع الی اﷲ والی وفات دی‘‘ کیوں نہیں کرتے۔یا پھر ص۲۳والے معنی کیوں نہیں کرتے کہ خدا نے مسیح کوباعزت وفات دے دی۔ صاف ظاہر ہے کہ آپ تلبیس کر رہے ہیں۔
سوال نمبر:۲۳… ص۲۶پر لکھتے ہیں:’’اب ہم کہتے ہیں کہ اگر بل سے پہلے ایک واقعہ کی نفی ہو تو ہمیشہ اسی وقت ایک واقعہ کا اثبات نہیںہوتا۔بلکہ نفی والے واقعہ سے کافی عرصہ بعد جاکر اثبات والا واقعہ وقوع میں آتاہے۔ہمارے اس بیان کی تائید قرآن مجید کی ذیل کی آیت سے ہوتی ہے اوریہ تائید جناب میاں صاحب آپ کے قاعدہ کی کلیت کو توڑ دیتی ہے۔ دیکھئے اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتاہے:’ ’وماخلقنا السمآء والارض وما بینھما لاعبین لواردنا ان نتخذہ لھو لاتخذناہ من لدنا ان کنا فاعلین بل نقذف بالحق علی الباطل فیدمغہ فاذا ھو زاحق ولکم الویل مما تصفون‘‘کافر کہتے تھے کہ خدا نے یہ زمین و آسمان کھیل کے طور پر بنائے ہیں(الانبیائ:۱۶،۱۸)اس سے زیادہ ان کا کوئی مقصد نہیں۔ اس کی تردید میں اﷲ نے فرمایا کہ:
{ہم نے آسمانوں اورزمین کو اورجو کچھ ان کے درمیان ہے۔ کھیلتے ہوئے نہیںبنایا۔ اگر ہم نے اس کا ارادہ کیا ہوتا تو پھر ہم اپنی طرف سے ایسا ہی کرتے۔اگر ہم کرنے والے ہوتے (یعنی اگر ہمارے شان کے مناسب ہوتا)بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم توحق کو باطل پراٹھا مارتے ہیں۔ تو وہ حق باطل کا کچومر نکال دیتا ہے اورتم لوگ خدا کا جو وصف بیان کرتے ہو(کہ اس نے بطور کھیل انہیں بنایا ہے،نہ کسی اورمقصد کے لئے)یہ تمہارے لئے تباہی کاباعث ہے۔}
اس آیت میں ’ ’بل نقذف بالحق علی الباطل فیدمغہ فاذا ھو زاحق‘‘ کے الفاظ سے آسمان اورزمین اوران کے درمیان اشیاء بطور کھیل کے بنایا جانے کی نفی کا ہی مزید ثبوت مہیا کیاگیاہے اوران کے بنایا جانے کا اہم مقصد بیان کیاگیاہے کہ ہم نبیوں کوبھیج کر حق