سوال نمبر:۲۱… ص۲۵پر لکھتے ہیں:’’آپ بل کے استعمال کا یہی مقصد جانتے ہیں کہ بل سے پہلا واقعہ اوربل کے بعد کا واقعہ ہمیشہ ایک ہی وقت میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ گویا ان میں اتحاد آنی ہوتا ہے۔ ہم اس جگہ بل کا استعمال اتحاد آنی کے لئے نہیں بلکہ اتحاد زمانی کے لئے جانتے ہیں۔ ہمارے نزدیک مسیح کے صلیب سے بچنے کا واقعہ پہلے پیش آیا اوریہودیوں کے ہاتھ سے عدم قتل کا فعل ان کی ساری زندگی پر محیط ہے۔پھرطبعی عمر پاکر آپ کی وفات وعدہ انی متوفیک ہوئی اور حسب وعدہ ’ ’ورافعک الیّٰ‘‘خدا نے ان کا ان کی وفات کے بعد اپنی طرف رفع کرلیا۔ اس لئے عدم قتل اوررفع الی اﷲ میں اتحاد زمانی پایاگیا۔جو اس جگہ الیٰ کا تقاضا ہے۔‘‘
جواب… گزشتہ صفحات میں تصریح کی جاچکی ہے کہ رفع فعل ماضی ہے۔ اس کی ماضویت بل سے پہلے مذکور واقعہ یعنی واقعہ صلیب کی نسبت سے ہے۔عیسیٰ علیہ السلام کو یہود نے قتل نہیں کیا۔ بلکہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا۔اٹھا لینے کا واقعہ پہلے پیش آیا اورصلیب کا واقعہ بعد میں۔ یہ بھی مفصل بیان ہوچکا ہے کہ صلیب پر قتل کسی ایسے شخص کا ہواہے۔جس پر کہ عیسیٰ علیہ السلام کی شباہت ڈال دی گئی۔آپ کے عقیدے کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام سولی پرچڑھائے گئے۔بہرحال آپ اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ ’ ’ماقتلوہ یقینا‘‘کی آیت واقعہ صلیب کے بارے میں ہی ہے۔آپ کے عقیدے کے مطابق عیسیٰ صلیب پرلٹک رہے تھے۔ صلیب پر مرے نہیںبلکہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف بلالیا۔چونکہ عیسیٰ علیہ السلام صلیب پرمرے نہیں۔پس زندہ آسمان پراٹھا لئے گئے۔اگر آپ رفع کے وضعی اورحقیقی معنے اوپراٹھانا مراد نہیں لیتے(حالانکہ ایسا کرنے کی کوئی وجہ موجود نہیں)توص۲۵ کے مطابق مرفوع الی اﷲ والی وفات ہی لے لیں۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر قتل نہیں ہوئے۔لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کی روح اپنی طرف اٹھا لی۔ بالفاظ دیگر عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر قتل ہوگئے۔
حالانکہ بل سے پہلے ان کے قتل کی نفی کی گئی ہے۔ تضاد کی وجہ سے رفع کا معنی مرفوع الی اﷲ والی وفات کرنا باطل ہے۔بہرحال رفع کا معنی کچھ بھی کریں۔بل سے پہلے اوربل کے بعد مذکورواقعات میں اتحاد آنی ثابت ہے۔گزشتہ صفحات میں وضاحت کی جاچکی ہے کہ بل ابطالیہ ہے اوراس سے ماقبل اورمابعد مذکورہ واقعات میں منافات ہوتی ہے۔آپ کے اس عقیدے کو کہ عیسی علیہ السلام صلیب پرلٹکائے گئے لیکن مرے نہیں۔قرآن مجید کی نص باطل ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے:’ ’واذا کففت بنی اسرائیل عنک (۵:۱۱۰)‘‘{اور (وہ وقت یاد کرو)جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے دور روکے رکھا۔}عن کا لفظ دوری کے لئے آتا ہے۔ صلیب