عباسؓ سے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا کہ قبل موتہ سے مرادقبل موت عیسیٰ ہے۔}
کنز العمال میں حضرت ابن عباسؓ سے مرفوعا مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
’ ’فعند ذالک ینزل اخی عیسی ابن مریم من السمائ‘‘{پس ان(مذکورہ) واقعات کے وقت میرابھائی عیسیٰ بن مریم آسمان سے اترے گا۔}
سوال نمبر:۱۹… ص۲۴پر آپ نے امام فخر الدین راضی کی تفسیر کبیر سے حوالہ دیا ہے۔
جواب… کاش کہ آپ ان کی مندرجہ ذیل تحریریں بھی نقل کرتے:’ ’ان التوفی اخذا الشی وافیا ولما علم اﷲ ان من الناس۰من یخطر ببالہ ان الذی رفعہ اﷲ لابدہ ذکر ہذا الکلام لیدل علی انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام رفع بتامہ الی السماء بروحہ وبجسدہ (تفسیر کبیر جلد دوم)‘‘{توفی کے معنی ہیں کہ کسی چیز کو پورا پورا لے لینا اورچونکہ اﷲ تعالیٰ نے صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کااٹھایاتھا اورجسم کو نہیں اٹھایاتھا۔اس لئے اﷲ نے یہ کلام ’ ’انی متوفیک‘‘فرمایاتاکہ اس امر پر دلالت کرے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو مع جسم اور روح کے زندہ آسمان پراٹھایا۔}
۲… ’ ’قالوا ان قولہ ورافعک الیّٰ یقتضی انہ رفعہ حیا والوا ولا یفتضی الترتیب فلم بیق الا ان یقول فیہ تقدیم وتاخیر والمعنی رافعک الیّٰ ومطھرک من الذین کفروا ومتوفیک بعد انزالک فی الدنیا ومثلہ من التقدیم والتاخیر کثیر فی القرآن (تفسیر کبیرجلددوم)‘‘{قول الٰہی ’ ’ورافعک الیّٰ ‘‘تقاضا کرتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو زندہ اٹھالیا اورواؤ (عاطفہ) ترتیب کی مقتضی نہیں۔پس سوائے اس کے اورکچھ نہ رہا کہ کہا جائے کہ اس میں تقدیم وتاخیر ہے اورمعنی یہ ہیں کہ میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والاہوں اور کفار سے بالکل پاک صاف رکھنے والاہوں اورتجھے دنیا میں نازل کرنے کے بعد وفات دینے والا ہوںاوراس قسم کی تقدیم وتاخیرقرآن مجید میں بکثرت ہے۔}
سوال نمبر:۲۰… ص۲۵پر لکھتے ہیں :’’اﷲ تعالیٰ نے ان کی تردید میں فرمایا کہ یہودی اسے قتل کر ہی نہیں سکتے۔ جیسے کہ ’ ’ماقتلوہ ‘‘کا مفاد ہے۔’ ’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘بلکہ خدا نے مسیح کو مرفوع الی اﷲ والی وفات دی۔‘‘مرفوع الی اﷲ وفات کی صفت ہے۔یعنی اﷲ کی طرف اٹھائی گئی موت۔ اﷲ تعالیٰ البتہ موت وارد کرتاہے۔
جواب… موت اﷲ کی طرف اٹھائی نہیںجاتی۔رفعہ میں ضمیرکامرجع عیسیٰ علیہ السلام ہے جو کہ جسم مع روح ہے۔اسے ہی اﷲ نے اوپراٹھایا ہے۔