سوال نمبر:۱۷… ص۲۳پر آپ نے علامہ زمخشری کی تفسیر کشاف سے عبارت نقل کی ہے: ’’اے عیسیٰ میں تیری مدت عمر پوری کرنے والا ہوں۔معنی اس کے یہ ہیں کہ میں تجھے کافروں کے قتل سے بچانے والاہوں اورتجھے اس مقررہ مدت تک مہلت دینے والا ہوں۔جو میں نے تیرے لئے لکھ رکھی ہے اورتجھے طبعی موت دینے والا ہوں۔تو ان کے ہاتھ سے قتل نہیں ہوگا۔‘‘
جواب… یہ بات تو ہم بھی کہتے ہیں۔اس کو پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟آپ کی اس تفسیر کشاف میں ’ ’رافعک الیّٰ‘‘کے معنی اے الی سمائی ومقرملائکتی،یعنی تجھ کو اپنے آسمان اوراپنے فرشتوں کی قرارگاہ کی طرف اٹھانے والوںہوں۔نظر نہیں آئے۔ دیانت کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ بھی آپ نقل فرماتے۔
سوال نمبر:۱۸… ص۴۴ پر آپ لکھتے ہیں :’’حضرت ابن عباسؓ کی طرف سے صحیح بخاری، کتاب التفسیر میں متوفیک کے معنی ممیتک کے لکھے ہیں کہ میں تجھے مارنے والا ہوں۔‘‘
جواب… کاش کہ آپ مسیح علیہ السلام کے رفع اورتوفی کے بارے میں حضرت ابن عباسؓ کا صحیح مذہب بیان کرتے۔امام سیوطیؒ تفسیر درمنثور میں لکھتے ہیں:’ ’عن الضحاک عن ابن عباسؓ فی قولہ انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘یعنی ’ ’رافعک ثم متوفیک فی آخرالزمان‘‘ حضرت ضحاکؒ تابعی حضرت ابن عباسؓ سے قول الٰہی ’ ’انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ مراد اس جگہ یہ ہے کہ تجھے اٹھالوںگا۔پھر آخری زمانے میں وفات دوںگا۔اسی طرح تفسیر البی السعود میں ہے:’ ’والصحیح ان اﷲ تعالیٰ رفعہ من غیروفاۃ ولا نوم کماقال الحسن وھواختیارالطبری وھو الصحیح عن ابن عباسؓ‘‘{صحیح یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو بغیر موت اورنیند کے اٹھایا۔جیسا کہ حسن بصری تابعیؒ نے کہا اوریہی امام ابن جریر طبریؒ نے اختیارکیا اوریہی حضرت ابن عباسؓ سے صحیح طور پر ثابت ہے۔
تفسیر فتح البیان میں ہے کہ آیت’ ’وانہ لعلم للساعۃ (۴۳:۶)‘‘یعنی تحقیق وہ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) قیامت کا ایک نشان ہے،سے حضرت ابن عباسؓ عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کوقرب قیامت کی ایک نشانی جانتے تھے۔محدث ابن حریرؒ لکھتے ہیں:’ ’عن سعید ابن جبیر عن ابن عباس وان من اھل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ قال قبل موت عیسیٰ ‘‘{آیت ’ ’وان من اھل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘کی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ کے شاگرد حضرت سعید بن جبیر تابعیؒ نے ایک روایت میں حضرت ابن