ضرور گئے لیکن مرے نہیں۔گویا کہ آپ کے عقیدے کے مطابق ’ ’وماقتلوہ یقینا بل رفعہ الیہ‘‘ کا مطلب یہ ہواکہ عیسیٰ علیہ السلام جو صلیب پرلٹک رہے تھے۔قتل نہیں ہوئے بلکہ اﷲ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا۔ان معنوں سے بھی عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ اوپر اٹھایا جانا ظاہر ہے۔
سوال نمبر:۱۵… آپ ص۲۳پر لکھتے ہیں :’ ’رفعہ اﷲ الیہ‘‘کے الفاظ باعزت وفات کے لئے بھی آتے ہیں۔‘‘
جواب… اگر آپ کے یہ معنی تسلیم کر لئے جائیں توآیت مذکورہ بالا کے معنی یہ ہوں گے اور یہودیوں نے یقینا عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا۔بلکہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو باعزت وفات دی۔ واضح رہے کہ آپ کے عقیدے کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام جوسولی پرلٹک رہے تھے۔باعزت وفات پا گئے۔گویا کہ قتل ہوگئے حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے قتل کی نفی کی ہے۔اس طرح آیت میں تضاد واقع ہوگا۔
پھر مرزا غلام احمدقادیانی کا قول ہے کہ یہودی صلیب کی موت کو ملعون قرار دیتے تھے۔ تو کیا یہ معنی کرکے نعوذ باﷲ عیسیٰ علیہ السلام کو ملعون ٹھہراناچاہتے ہیں؟
آپ نے حضرت انس بن مالکؓ کی جو روایت نقل کی ہے۔اس میں نبی کریمﷺ کا اکرام بیان ہوا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے امت کی مکروہ باتیں انہیں زندگی میں نہیں دکھائیں۔اکرام تو نبی کریمﷺ کی ذات کا ہے۔وفات کی عزت کیسے ہوئی۔
سوال نمبر:۱۶… آپ ص۲۵پر لکھتے ہیں:’’یہودیوں کا دعویٰ تھا کہ ’ ’اناقتلنا المسیح‘‘ یعنی بے شک ہم نے مسیح کو قتل کردیاہے۔اس قول سے مقصود ان کا یہ تھا کہ مسیح بوجہ قتل ہونے کے ملعون ہوا۔ یعنی اس نے رفع الی اﷲ والی موت نہیں پائی۔‘‘
جواب… عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر قتل سے بچ گئے۔انہوں نے رفع الی اﷲ والی موت پائی۔ نبی کریم ﷺ کوصلیب کاواقعہ پیش نہیں آیا۔انہیں اﷲ نے کیسے باعزت وفات دے دی اورپھر باعزت وفات سے معارج بلندہونے کے کیامعنی۔کیا وفات سے پہلے مدارج بلند نہیں تھے؟ وفات کے بعد بھی درجے زندگی میں اعمال صالحہ اوراﷲ تعالیٰ کی عنایت درجے کی اطاعت کی وجہ سے بلند ہوتے ہیں،نہ کہ باعزت وفات پانے سے۔
قرآن مجید میں یہودیوں کے انبیاء کو قتل کرنے کاذکرہے۔لیکن اﷲ تعالیٰ نے انہیں مقتول ہونے کی وجہ سے ملعون قرار نہیںدیا۔جب قتل کی موت باعث لعنت ہے ہی نہیں تو طبعی وفات کیسے باعزت وفات قرار دی جاسکتی ہے؟