سے پہلے نہیں ہونا چاہئے۔کیونکہ رفع بعد میں ہے لیکن آپ لکھ رہے ہیں کہ باعزت طبعی عمر گزار کر حسب آیت’ ’انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘طبعی وفات پائی اوراس کے ساتھ ہی بلند ہو گئے۔ یہ اعتقاد تو مرزا قادیانی کے خلاف ہے ۔جب عیسیٰ علیہ السلام نے زندگی میں عزت پالی تو وفات کے ساتھ بلند ہونے کاکیامطلب؟اگر اس سے آپ کی مراد روح کارفع ہے تو یہ تو ہر انسان کا ہوتا ہے۔عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ کی طرف سے پریشانی کے وقت یہ تسلی دینے کی کیا ضرورت تھی کہ آپ کو وفات دے کر آپ کی روح کو اوپراٹھالیگا۔
سورئہ آل عمران کی آیت ہے:’ ’واذقال اﷲ یاعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطھرک من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ‘‘{(وہ وقت یاد کرو)جب اﷲ تعالیٰ نے کہا :اے عیسیٰ میں تیرا وقت پورا کروںگا اور تجھے اپنی طرف اٹھالوںگا اورکافروں سے تجھے پاک کروں گا اورتیری پیروی کرنے والوںکو قیامت تک کافروں پر غالب رکھوں گا۔}
اس آیت مذکور میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اس وقت وعدے کئے جب یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے مکان کا محاصرہ کر لیاتھا۔رفع کا وعدہ مستقبل میں پورا ہونا تھا۔ اس وعدہ کا ایفاء آیت’ ’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘میں مذکور ہے۔یہ رفع فعل ماضی ہے جس سے ظاہر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا رفع عمل میں آگیا اور ایسا واقعہ صلیب سے پہلے ہوا۔توفی کا وعدہ بھی مستقبل کے لئے تھا۔ آیت ’ ’فلما توفیتنی‘‘میں اس کے ایفاء کا ذکر ہے۔لیکن اس کا استعمال عیسیٰ علیہ السلام قیامت والے دن اﷲ تعالیٰ کے سوال کے جواب میں کریںگے۔کسی اورجگہ یہ لفظ فعل ماضی کے طورپر استعمال نہیں ہوا۔
سوال نمبر:۱۴… ص۲۲پر ہی لکھتے ہیں کہ:’’واقعہ صلیب کے بعد بھی مسیح کے مرفوع الی اﷲ ہونے تک یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کرسکے۔‘‘یہاں آپ نے مسیح علیہ السلام کا مرفوع الی اﷲ ہونا لکھا ہے۔محض جسد یا روح کو مسیح نہیں کہا جاسکتا۔مسیح عبد مع روح کا ہی نام ہے۔ سو آپ نے تسلیم کرلیا کہ رفع جسد مع روحکاہی ہوا۔گزشتہ صفحات میں ثابت کیاجاچکاہے کہ عیسی علیہ السلام کا رفع واقعہ صلیب سے پہلے وقوع پذیر ہوا۔
جواب… آپ کا یہ عقیدہ کہ عیسیٰ علیہ السلام صلیب پرچڑھائے تو گئے،لیکن صلیب پر مرے نہیں۔سورئہ النساء کی آیات ’ ’وقولھم انا قتلنا المسیح‘‘سے لے کر ’ ’وماقتلوہ یقینا‘‘ تک واقعہ صلیب کا ہی ذکر ہے۔آپ کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام صلیب پرلٹکائے تو