میں بل اسی امر کا فائدہ دے رہا ہے۔ یہ ’ ’ماقتلوہ یقینا‘‘کی وضاحت کے لئے لایا گیا ہے۔ جو ایک درست فقرہ ہے اورمقصود متکلم بھی اوربل کے بعد کے فقرہ پربڑھادیاگیا ہے کہ مسیح کا رفع الی اﷲ ہوا۔ یعنی اس لئے باعزت طبعی عمر گزار کر حسب آیت ’ ’انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘ طبعی وفات پائی اوراس کے ساتھ ہی بلندہوگئے۔
جواب… خدا تعالیٰ کا یہ قول واقعہ صلیب سے ۶۰۰سال بعد کا ہے ۔جبکہ قرآن مجید نازل ہوا اور مسیح کے عدم قتل اوراس کے رفع الی اﷲ کے دونوں فعل وقوع میں آچکے تھے اور قصہ ماضی ہوچکے تھے اورعدم قتل کے فعل کا دامن ’ ’رفعہ اﷲ الیہ‘‘کے وقت تک پھیلا ہواتھا۔کیونکہ واقعہ صلیب کے بعد بھی مسیح کے مرفوع الی اﷲ ہونے تک یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کر سکے۔
حضرت انس بن مالکؓ خادم رسول ﷺ کی روایت کے مطابق ’ ’رفعہ اﷲ الیہ‘‘ کے الفاظ باعزت وفات کے لئے بھی آتے ہیں ۔چنانچہ انہوں نے کہا کہ:’ ’اکرم اﷲ نبیہ ان یریہ فی امتہ مایکرہ فرفعہ الیہ وبقیت النقمۃ‘‘کہ خدا نے نبی کریمﷺ کی عزت افزائی فرمائی کہ آپ کو امت کی مکروہ باتیں زندگی میں نہ دکھائیں اورآپؐ کو اپنی طرف اٹھالیا۔یعنی باعزت وفات دے دی۔جس سے آپؐ کے مدارج بلندہوئے اور خرابیاں بعد میں ظہور پذیر ہوئیں۔
انہی معنوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع الی اﷲ ہوا کہ آپ نے باعزت طبعی عمر گزار کر وفات پائی اورآپ کے مدارج بلند ہوئے۔’ ’ماقتلوہ یقینا‘‘کی وضاحت نہیں۔ صلیب پر عیسیٰ علیہ السلام کی بجائے کسی اورشخص کا قتل ہونا’ ’وقولھم انا قتلنا المسیح‘‘اور ’ ’ماقتلوہ وماصلبوہ‘‘سے ثابت ہے ۔پھر بھی ’ ’ماقتلوہ یقینا‘‘سے مزید تاکید کردی کہ عیسیٰ علیہ السلام یقینا قتل نہیں ہوئے۔ غیر مسیح جس پر کہ عیسیٰ کی شباہت ڈالی گئی،کا قتل وصلب ’’ولکن شبہ لھم‘‘میں مذکور ہے۔بل ابطالیہ ہی ہے۔اس سے ماقبل میں عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی نفی ہے اورمابعد میں ان کے رفع الی اﷲ کا بیان ہے’ ’رفعہ‘‘میں ضمیر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف ہے جو کہ جسد اورروح کامرکب ہے۔سو رفعہ میں رفع سے مراد جسمی کے علاوہ کچھ اور مراد لینا جائز نہیں۔
مرزا غلام احمدقادیانی کے مذہب کے مطابق متوفیک ورافعک الیّٰ میں ترتیب ذکری ضروری ہے۔اگر رفع کے معنی عزت پانایا درجات کی بلندی ہے تو متوفیک کی رو سے وفات