روشن کی طرح باطل ثابت کررہاہے۔
سوال نمبر:۱۲… ص۲۰پر لکھتے ہیں کہ آیت:’ ’ماقتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ میں اضراب ابطالی نہیں پایاجاتا۔کیونکہ پہلے جملے ’ ’ماقتلوہ یقینا‘‘کابل سے عطف کے ذریعے ابطال مقصود نہیں۔کیونکہ ابطال کی صورت میں معنی یہ ہوجائیں گے کہ انہوں نے اسے قتل نہیں کیا کہنا تو باطل ہے اور رفع الی اﷲ ثابت ہے۔یہ بات تو میاں صاحب!آپ کو بھی مسلم نہیں ہوگی ۔ پھر کس طرح آپ نے لکھ دیا کہ اس آیت میں اضراب ہے۔جبکہ ’ ’ماقتلوہ یقینا‘‘والا فقرہ بھی یہودیوں کی تردید میں مقصود باالذات ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے قتل نہیں کیا اور بل کے بعد ’ ’رفعہ اﷲ الیہ‘‘کہنا بھی متکلم کا اہم مقصد ہے۔ پس دونوں فقرے متکلم کا مقصود ہیں۔ تو ان میں اضراب ابطالی اس کے دو فقروں میں پایا ہی نہیں جاسکتا۔‘‘
جواب… اس جگہ بل ابطالیہ ہی ہے۔’ ’ماقتلوہ یقینا‘‘کا ابطال مقصود نہیں۔ بلکہ قتل کے فعل کا ابطال ہے اوررفع کے فعل کااثبات۔علم اصول ونحو کی رو سے بل ابطالیہ سے پہلے ایک امر کی نفی اوربعد میں ایک دوسرے امر کا اثبات ہوتاہے اور یہ دونوں متضاد فی الحکم ہوتے ہیں۔قرآن مجید میں ہے :’ ’ام یقولون بہ جنۃ بل جاء ھم با الحق (۲۳:۷)‘‘{کیا یہ منکر کہتے ہیں کہ اسے یعنی(ہمارے پیغمبر)کو جنون ہے۔(نہیں)بلکہ وہ تو ان کے پاس حق لے کرآیاہے۔}
ایک اورآیت میں ہے:’ ’وقالوا اتخذ الرحمن ولد ابل عباد مکرمون (۲۱:۲۲)‘‘ {اوریہ مشرک کہتے ہیں کہ خدائے رحمن نے فرزند اختیار کیا۔وہ اس سے پاک ہے بلکہ وہ تو اس کے معزز بندے ہیں۔}پہلی آیت میں کلمہ بل سے رسول ﷺ کی نسبت مجنونیت کا ابطال اورآپ کے حق کے ساتھ آنے کااثبات کیاگیا ہے۔دوسری آیت میں فرشتوں کے اﷲ تعالیٰ کے معزز بندے ہونے کااثبات اوراس کا بیٹااختیار کرنے کی نفی کی گئی ہے۔
پس ’’بل‘‘ سے پہلے مذکور قتل اورمابعد رفع میں منافات ہونی چاہئے۔اس لئے جب زندہ جسم کو آسمان کی طرف اٹھالیاگیا تو اس کو قتل نہیں کرسکتے۔پہلی آیت سے ظاہر ہے کہ نبی ﷺ حق لے کرپہلے آئے۔بعد میں کفار نے آپ کے متعلق جنون کازعم کیا۔اسی طرح ’ ’ماقتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘میں واقع صلیبی سے پہلے اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھالیا۔
سوال نمبر:۱۳… ص۲۲پر لکھتے ہیں ،پس آیت’ ’ماقتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘