گواہ رہے۔تو پھر آپ آیت ’ ’کنت علیھم شھیدا مادمت فیھم‘‘سے کیسے نتیجہ نکالتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کی قوم ان کی زندگی میں نہیں بگڑی۔جب وہ اہل فلسطین میں موجود ہی نہیں تھے تو ان کو قوم کے بگڑنے نہ بگڑنے کا کیسے علم ہوسکتا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا صلیب سے بچ کر کشمیر کی طرف ہجرت کرنا محض بے بنیاد بات ہے۔اگر واقعۃ ایسا ہوتا تو قرآن میں ’ ’مادمت فیھم‘‘نہ آتا۔کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام ۸۷ برس(آپ کے عقیدے کے مطابق)اہل فلسطین میں نہیں رہے۔نعوذ باﷲ دمت فیھم کہنا کذب بیانی ہوگی۔اس صورت میں موزوں لفظ ’ ’دمت حیا‘‘ہی ہوتا۔
سوال نمبر:۱۰… ص۱۷پر لکھتے ہیں کہ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بلیغانہ الفاظ ’ ’وکنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم‘‘ان کے حیّا ہونے کو مستلزم بھی ہیں اوران کے زندہ ہونے کے لئے کنایہ بھی۔‘‘لہٰذا ان کا اگلا فقرہ ’ ’فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم‘‘ان کے حیا ہونے کے مقابل میں واقع ہوکر ان کے وفات پاجانے کے لئے نص صریح ہوا۔ کیونکہ توفی کا لفظ اس جگہ حیّا کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے۔لہٰذا وہ وفات کے معنی دیتا ہے۔‘‘
جواب… زبیری صاحب!آپ کے اپنے قول کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام۸۷؍ برس کشمیر میں رہے اوراس زمانے میں اہل فلسطین میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے ان پرگواہ نہ تھے۔دمت فیھم کو زندہ ہونے کے لئے کنایہ بنانے کے لئے کشمیر کی طرف ہجرت کرنے اورایک سو بیس برس کی عمر پانے کے عقیدے کو خیرباد کہئے،جس کے لئے آپ غالباً تیار نہ ہوںگے۔اگر بالفرض محال آپ مان بھی لیں تو بھی آپ کی دال نہیں گلتی۔
سارے قرآن میں کہیں بھی توفی کالفظ حیات کے مقابلے میں استعمال نہیں ہوا۔ ہمیشہ حیات کے مقابلے میں موت استعمال ہواہے۔مثلاً ’ ’الذی خلق الموت والحیوۃ (۶۷:۲)‘‘’ ’ولا یملکون موتا ولاحیوۃ (۲۵:۳)‘‘’ ’فاحیا بہ الارض بعد موتھا (۲:۱۸۰)‘‘
سوال نمبر:۱۱… ص۱۷پر لکھتے ہیں کہ حسب آیات:’ ’انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع الی اﷲ اس پیشین گوئی کے مطابق ان کی وفات کے بعد یا وفات کے ساتھ ہی وقوع میں آیا اوراس توفی والے رفع کا ذکر آیت’ ’ماقتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘میں کیاگیا ہے۔‘‘
جواب… آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع الی اﷲ لکھ رہے ہیں۔ مردہ جسم کو عیسیٰ