ایسا لفظ استعمال نہیں کرتا کہ معاملہ شک میں رہے۔اگر’ ’فلما توفیتنی‘‘سے وفات مراد ہوتی تو اﷲ تعالیٰ ضرور ’ ’مادمت حیّا‘‘کہتے۔جیسا کہ دوسری آیت’ ’اوصانی بالصلوٰہ والزکوٰۃ مادمت حیّا‘‘میں کہا اس کے دو وجوہ ہیں کہ نماز ورزکوٰۃ کی طرح شہادت کا فعل بھی زندگی بھر رہتا ہے۔ سو’ ’دمت حیّا‘‘چاہئے۔زندہ ہونے کی صورت میں شہادت کا فعل ان کے قوم میں موجود ہونے کو مستلزم ہوگا۔قوم میں موجودگی کے ذکر کی ضرورت نہیں۔دوسری نہایت اہم وجہ یہ ہے کہ ’ ’مادمت حیّا‘‘کہنے سے یہ امکان ختم ہوجاتا ہے کہ قوم میں موجود نہ ہوں اورزندہ ہوں۔ اس صورت میں’ ’دمت حیّا‘‘کے بعد’ ’فلما توفیتنی‘‘میں توفی کی صورت موت متعین کرنے کے سوا کوئی اورچارہ نہیں ہوگاجو آپ کی مراد ہے۔
چونکہ لفظ توفی کے معنی ہیں۔اس کو ایک معنی میں معین کرنے کے لئے ضرور کوئی قرینہ موجود ہوناچاہئے۔آیات ’ ’رافعک الیّٰ‘‘اور’ ’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘عیسیٰ کی توفی سے رفع آسمانی مراد لینے کے لئے قرائن قویہ ہیں۔ پس ’ ’فلما توفیتنی‘‘کے معنی ’ ’فلما رفعتنی الی السمائ‘‘ہوں گے نہ کچھ اور۔
سوال نمبر:۹… ص۱۶پر لکھتے ہیں:’’اگر ایک انسان زندہ تو ہو،مگر اپنی قوم کے اندر موجود نہ ہو۔ بالفرض اگر کسی اورجگہ اپنی قوم سے علیحدہ ہوکر گیاہو۔تووہ اپنی قوم پر اس زمانہ حیات میں جس میں وہ قوم سے الگ ہوا۔قوم پر گواہ نہیں ہوسکتا۔‘‘
ص۱۷پر لکھتے ہیں:’’کسی پر شہادت دینا اپنی زندگی میں اس کا حال دیکھنے پر ہی ممکن ہے۔پس شہادت کی مناسبت سے اس موقع پر اسلوب کلام ’ ’مادمت حیا‘‘کہنے کو نہیں چاہتا۔ ’ ’مادمت فیھم‘‘کہنے کو ہی چاہتا ہے۔
جواب… سورئہ مائدہ کی آیت’ ’وکنت علیھم شھیدا مادمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم‘‘کے مطابق توفی کے وقت عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں میں موجود تھے۔جن سے انہوں نے کہا تھا’ ’ان اعبدواﷲ ربی وربکم‘‘یعنی عبادت کرو اﷲ کی جو میرا رب ہے اورتمہارا بھی۔ ظاہر ہے کہ یہ اہل فلسطین تھے۔آپ کا عقیدہ یہ ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد عیسیٰ علیہ السلام ہجرت کر کے کشمیر چلے گئے اورستاسی برس کشمیر میں رہنے کے بعد وہیں وفات پائی۔آپ کے اپنے قول کے مطابق جب وہ کشمیر میںتھے تو فلسطین میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے اہل فلسطین پرگواہ نہ تھے۔حالانکہ قرآن اعلان کر رہا ہے کہ توفی کے وقت ان پر گواہ تھے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ ’ ’فیھم‘‘سے مراد اہل کشمیر ہیں اورعیسیٰ علیہ السلام ۸۷برس ان پر