رات کے اعمال رات گزر جانے پر دن کے اول وقت میں لے چڑھتے ہیں اور اسی طرح دن کے اعمال دن گزرنے پر رات کے شروع میں لے چڑھتے ہیں۔اس عبارت سے ظاہر ہے کہ جب رفع کا صلہ الی آتا ہے تو اس کے معنی شے مذکور کو الیٰ کے مدخول کی طرف اٹھانا ہوتے ہیں۔ خواہ وہ شے جوہر ہو۔ خواہ عرض سورئہ فاطر کی آیت ’ ’الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ‘‘کی جو تفسیر حدیث شریف سے اوپرمذکور ہوئی ہے۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ رفع الی اﷲ اورصعودالی السماء معنوں میں مساوی ہیں۔
قرآن مجید کی سورئہ یوسف کی آیت ہے:’ ’ورفع ابویہ علی العرش (۱۲،۱۰۰)‘‘ {یعنی یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو تخت پربٹھایا۔}اس آیت میں رفع کا مفعول والدین ہیں اورعلی کا مدخول عرش ہے اورحقیقتاً والدین کا عرش پر مرفوع ہونامرادہے۔ اسی طرح آیات قرآنی :’ ’انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘اور’ ’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘میں عیسیٰ علیہ السلام کا جسد عنصری کے ساتھ آسمان پراٹھایاجانامرادہے۔
معتبر تفسیروں مثلاً معالم، تفسیر کبیر،تفسیررحمانی، جلالین،جامع البیان،مدارک، ابن کثیر،بیضاوی،کشاف ،سراج المنیر،خازن اورتفسیر عباسی نے ’ ’رافعک الیّٰ سے رفع الی السمائ‘‘مرادلکھا ہے۔
سوال نمبر:۸… ص۱۵پر لکھتے ہیں:جب آپ نے کہا ’ ’مادمت حیّا‘‘اس جگہ نہیں۔جیسا کہ اوصافی بالصلوٰۃ والزکوٰہ مادمت حیّا میں حیّا کالفظ ہے۔توجواب میں قاضی صاحب نے آپ کو کہاتھا کہ ’ ’مادمت فیھم ‘‘ اور’ ’مادمت حیّا‘‘زندگی کے بیان کے لئے ہی دواسلوب کلام ہیں۔ پس جناب میاں صاحب اس بات کو تو ہر شخص جان سکتا ہے کہ ’ ’وکنت علیھم شھیدا مادمت فیھم‘‘کے جملہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے شاہد ہونے کا ذکر قوم میں موجود ہونے کے زمانے تک قرار دیتے ہیں۔اور ’ ’مشھود علیھم‘‘میں ان کا موجود ہونا ان کے حیاّ یعنی زندہ ہونے کو ہی چاہتا ہے۔
جواب… آپ کا یہ کہنا کہ’ ’مادمت فیھم‘‘اور’ ’مادمت حیّا‘‘زندگی کے بیان کے لئے دو اسلوب کلام ہیں۔صحیح نہیں۔ یہ تودرست ہے کہ جب تک قوم میں موجود رہے،زندہ رہے۔ لیکن اس بات کا امکان ہے کہ قوم میں موجود نہ ہوں لیکن زندہ ہوں۔ جیسا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ و ہ دوسرے آسمان پر زندہ ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام قوم میں موجود تھے کہ ان کی توفی ہوگئی۔ ہم کہتے ہیں کہ ’ ’رفع الی السمائ‘‘سے ہوئی۔آپ کہتے ہیں کہ وفات سے ہوئی۔اﷲ تعالیٰ کوئی