عروج اوپر کی جانب حرکت کو کہتے ہیں عروج سے مرادعالم بالا کے فرشتوں اور روحوں کے منتہاء امر کی طرف چڑھنا مرادہے۔تفسیر مدارک میں اس کی تفسیر میں لکھا ہے:یعنی اﷲ تعالیٰ کے عرش اورمنتہائے امر کی طرف آئی ہے۔ سورئہ فاطر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’ ’الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ (…)‘‘{کلمہ طیب اﷲ کی طرف چڑھتا ہے اورنیک عمل اس (کلمہ طیب) کو اوپراٹھاتاہے} صعود اس حرکت کو کہتے ہیں۔ جو اوپر کی جانب ہو اسے عروج بھی کہتے ہیں اورخدا کی طرف کلمہ کے چڑھنے کے معنی ہیں۔فرشتوں کالوگوں کے اعمال کی کتابت میں لاکر آسمان کی طرف چڑھنا۔ ان معنوں کی تائید حضرت ابن مسعودؓ کی مندرجہ ذیل حدیث سے ہوتی ہے:
’ ’ان العبدالمسلم اذاقال سبحان اﷲ وبحمدہ والحمدﷲ ولا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر وتبارک اﷲ قبض علیھن ملک فضمھن تحت جنا حہ ثم یصعد بھن الی السماء فلا یمر بھن علی جمع من الملائکۃ الا استغفر لھاکلھن حتٰی یحییٰ بھن وجہ الرحمن ثم قرء الیہ یصعد الکلم الطیب۰ الایۃ‘‘{بیشک جس وقت کوئی مسلمان سبحان اﷲ وبحمدہ الخ پڑھتا ہے۔ تو ایک فرشتہ ان کلمات کو لے لیتا ہے اور اپنے بازوؤں کے نیچے لگا کر آسمان پرلے چڑھتا ہے۔پس فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے وہ گزرتا ہے۔وہ سب اس کے قائل کے لئے دعائے استغفار کرتے ہیں۔حتیٰ کہ اﷲ تعالیٰ کی جناب پاک میں تحفہً پیش کئے جاتے ہیں۔}
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے یہ حدیث سنا کر پھر آیت’ ’الیہ یصعدالکم الطیب‘‘ پڑھا۔صحیح بخاری میں باب ذکر الملئکۃ میں کراما کاتبین کی نسبت ’ ’ثم یعرج الیہ الذین با توا فیکم‘‘پھر جورات کو تم میں رہے۔خدا کی طرف اوپر چلے جاتے ہیں،وارد ہے۔
عروج کا صلہ الی آیا ہے اور یہ صعود کا ہم معنی ہے اورمراد عروج حقیقی ہے۔نہ کنائی نہ مجازی غرضیکہ عروج الی اﷲ کے معنی صعود الی السماء یا آسمان کی طر ف چڑھنا ہی ہیں۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے:’ ’یرفع الیہ عمل اللیل قبل عمل النھار‘‘{دن کا عمل صادر ہونے سے پہلے رات کا عمل خدا کی طرف مرفوع ہوجاتاہے۔}اس حدیث میں رفع کا صلہ الی آیا ہے اور اعمال کے رفع کی صورت اوپر کی مثال میں گزر چکی ۔امام نوویؒ نے اس حدیث کی شرح یوں فرمائی:’ ’فان الملئکۃ الحفظۃ یصعدون باعمال اللیل بعد انقضآئہ فی اول النھار ویصعدون باعمال النھار بعد انقضائہ فی اول اللیل‘‘{محافظ فرشتے